تحریک انصاف نے اپنے ہی ارکان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی، سپریم کورٹ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ سماعت پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کر رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی پاور ہے نہ ہی کوئی دائرہ اختیار کے وہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لے اور ان کو کالعدم قرار دے، الیکشن کمیشن کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی بے ضابطگی جس کا الزام لگایا جاتا ہے اس پر نشان الاٹ نہ کرے، آئین اور قانون الیکشن کمشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے اس لیے وہ آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا، تحریک انصاف کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا، ہمارے پاس دس روز تھے، اگر بیس دن میں الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن ہماری سیاسی جماعت کو سیاست سے ہی باہر کر دیتی، تحریک انصاف نے موقف اختیار کیا انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ہمارے ممبر ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں بے قاعدگی کی نشان دہی نہیں کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، انٹرا پارٹی الیکشن کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ممبران کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا یا نہیں، اعتراض کیا گیا کچھ ممبران کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شمولیت کا حق نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر کا موقف ہے کہ وہ ممبر ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا الیکشن کمیشن کی قانونی و حقائق میں بدنیتی کی، آپ کو بدنیتی ثابت کرنی پڑے گی، الیکشن کمیشن نے اس وقت کارروائی شروع کی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، آپ تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں الیکشن کمیشن اتنا خودمختار ہے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اس وقت کارروائی شروع کی، آپ یہ نہیں کہہ سکتے اپنے گھر میں جمہوریت نہیں چاہیے لیکن باہر جمہوریت چاہیے، سیاست ہے ہی جمہوریت، آپکو سیاست چاہیے لیکن جمہوریت نہیں چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات رہے ہیں، پی ٹی آئی میں بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے، تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی جماعت کا تو نعرہ رہا لوگوں کو بااختیار بنانا ہے ، آپ نے اپنے ہی ممبران کو حق نہیں دیا۔علی ظفر نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اصل نام فوج ہے، آپ یہ بھی الزام نہیں لگا رہے کہ آپ کے مخالف حکومت میں ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے یہ نہیں کہہ سکتے الیکشن ہو گئے، الزام یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، آپ کے بانی چیئرمین اس وقت جیل میں ہیں، انھیں ٹرائل کا سامنا ہے، کل وہ باہر آکر کہیں گے میں تو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں، کم از کم ممبران کو ووٹ کا حق تو ملنا چاہیے، پارلیمنٹ کا قانون کہتا ہے سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت لائیں، جن 14 لوگوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا انھیں کیوں ووٹنگ کے حق سے محروم کیا گیا۔
علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر الیکشن میں کوئی بے ضابطگی ہے تو الیکشن کمیشن کو جانچنے کا حق نہیں ہے، اگر کسی کو ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض ہے تو سول کورٹ جائیں، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اچانک سے یہ الزام لگا دینا اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو کر کچھ کر رہی ہے، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بڑے بڑے عہدوں پر سب جانتے ہیں سیاسی جماعتوں پر کون عہدیدار ہیں، چھوٹے عہدوں پر تو لوگوں کو موقع ملنا چاہیے، اگر آپ 8 فروری کو 326اراکین کو بلامقابلہ جتوا کر لے آئیں ایسے الیکشن کو میں نہیں مانتا، لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس بہت ہو گیا، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔