اسلام آباد دھرنے میں بیٹھی خواتین وزارت یا مراعات نہیں اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی ہیں، اختر مینگل


خضدار(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ، جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی کے مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل نے فیروز آباد میں مختلف اجتماع شمولیتی پروگرامزسے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی میں شمولیت کرنے والے کو پارٹی کی جانب سے خوش آمدید کہتے ہیں پانچ سال بعد بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخابات کا انعقاد نہ ہو 2018میں بھی ہمارا جمعیت سے اتحاد تھا اور 2024کے انتخابات میں بھی ہمارا جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد ہے قومی اسمبلی کا ووٹ مجھے دیں نہ دیں مگر صوبائی اسمبلی کی نشست سے میر یونس زہری جن کا انتخابی نشان کتاب ہیں ان کو اپنا قیمتی ووٹ ضرور دیں مختلف جگہوں پر جلسوں ، اجتماعات میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا قمر الدین ، میر یونس عزیز زہری سمیت بی این پی و جمعیت کے مرکزی رہنمابھی شریک رہے
سردار اختر جان مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باتیں سیاسی ، ملکی ، علاقائی بہت ہیں ہم سے گلہ کیا جاتا ہے کہ ہم سے اتحاد کیوں نہیں کیا جاتا ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اتحاد اعتماد کا دوسرا نام ہے پہلی بار کسی کے اعتماد کے ٹھیس پہنچایا جائے دوسری بار بھی اعتماد کو ٹھیس پہنچایا جائے تو پھر بھی اتحاد کیا جائے تو یہ بہت بڑی بیوقوفی ہو گی ووٹ امانت ہے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والوں سے اتحاد کیسے ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ فیروز آباد ہو یا خضدار حالات سے آپ سب ہی واقف ہیں یہاں کے حالات بھی فلسطین اور غزہ جیسے تھے میزائل فائر نہیں ہوئے جہاز بھی نہ آئے ڈرون حملے بھی نہیں ہوئے مگر یہاں کے غیور بلوچ نوجوانوں محفوظ نہ تھے موبائل چوری ، ٹرک چوری پھر بندے لاپتہ ہونا شروع ہوئے آپ ان سے واقف ہیں وہی آپ کے پاس اب ووٹ مانگنے آ رہے ہیں ان کے اتحادی ووٹ لینے آ رہے ہیں
ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں سے بچے یتیم ،خواتین بیوہ ہوں بہنوں کے بھائی ابھی تک لاپتہ ہیں اسی خضدار سے حاجی عطااللہ ، جمعہ خان رئیسانی ، سلام ایڈووکیٹ جیسے لوگ جو امن ، بھائی چارگی کی فضاقائم رکھنا چاہتے تھے ان کو ٹارگٹ کیا گیا سلام ایڈووکیٹ جو لوگوں کیسز مفت کچہری میں کیا کرتے ہیں انہیں معصوم بچی کے ہمراہ ٹارگٹ کر کے شہید کیا گیا لطیف شاہوانی جیسے دوست کو شہید کیا گیا ڈاکٹر صالح جیسے دوست کو شہید کیا گیا ندیم گرگناڑی کے دو جوان بیٹے شہید کئے گئے سردار علی محمد قلندرانی کے علاقے کے حال آپ لوگوں کے سامنے تھا ان کے خود کے بیٹھے لاپتہ ہیں 85سالہ بزرگوں کو بھی نہیں بخشا گیا ان کو بھی لاپتہ کر دیا گیا توتک میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں وہ کون تھے افغان مہاجر تھے ، ہندوستانی فوجی تھے ،
امریکی یا روس کے سپاہی تھے نہیں وہ یہیں کے باسی تھے ہمارے اور آپ کے الادیں ، رشتہ دار تھے جس بے دردی سے ان کو قتل کیا گیا ظلم و زیادتیاں کی گئیں وہاں زمین کی کمی تھی کیا ہر بندے کی قبر علیحدہ بنائی جاتی ایک قبر میں 150افراد کو دفن کر دیا گیا بلڈوزر سے مٹی اور چونا ڈالا گیا ایسا تو ہم نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد دیکھا ہاتھ پاں بندی لاشوں پر چونا ڈالا گیا یہاں کیسی انسانیت ہے کیسی مسلمانیت ہے کسی مذہب میں اس کی اجازت دی گئی ہے
ہمیں مارنے والے خود کو مسلمان اور اسلام کے پیروکار سمجھتے ہیں اور ہمیں کافر تصور کرتے ہیں ہمارا کیا گناہ ہے ہم غیر ملکی ہے مہاجر ہیں ہم مسلمان نہیں ہیں ہمیں ایک قبر کی اجازت نہیں ہے اس ریاست میں قبر کی بھی اجازت نہیں کفن کی بھی اجازت نہیں جب ہم حق کی بات کریں کہا جاتا ہے آپ ریاست کو نہیں مانتے ، قانون کو نہیں مانتے یہ کونسا قانون ہے کہ 150لاشیں ایک قبر میں دفنا دی جائیں کس مذہب میں اس کی اجازت ہے جب ہم یہ باتیں کریں تو ان کو تکلیف ہوتی ہیں ہماری باتوں سے ان کے پسینے چھوٹ جاتی ہیں ہماری خواتین یہاں سے اسلام آباد ننگے پاں گئیں مگر ان کو تکلیف نہ ہوئی ہمارے سفید ریش کی آنسو ان کو تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتی انہوں نے کہا کہ ہر جگہ یہی پیغام گیا کہ میرے کاغذات مسترد کئے جائیں میرے کاغذات مسترد کر کے میری زبان بند نہیں کی جا سکتی اسمبلی میں چند لوگ میرے آواز سنتے ہیں یہاں اس آج کے مجمے میں ہزاروں لوگ میری آواز سن بھی رہے ہیں مجھے دیکھ بھی رہے ہیں آپ کو میری آواز پسند نہیں مگر یہ لوگ میری آواز سنتے ہیں
اب ہر گندی حرکت اس لئے کرتے ہیں کہ ہم خاموش نہیں گے مگر ہم خاموش نہیں ہوں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے وہ اور ہیں جو دم ہیلتے آپ لوگوں کے پیچھے پیچھے آتے ہیں ہم ان میں سے نہیں ہیں ایک غلطی کرو گے چار دفعہ سنو گے آپ کو پسند آئے یا نہیں تربت سے نکل کر اسلام آباد تک خواتین نے دھرنا دیا ہوا ہے خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کر رہی ہیں دھرنا دینے والی خواتین ، اسمبلی کی نشست، وزارت ، صدارت کچھ نہیں مانگ رہیں صرف اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی ہیں اس کے بدلے میں خواتین پر تشدد کیا گیا پھر ہم چپ کا روزہ رکھیں اسی اثناوائس چیئرمین زیرینہ وہیر نذیر احمد شیخ ، ڈاکٹر حسن خان رئیسانی ، محمد جان رئیسانی ، محمد عالم کی موجودگی میں پیروعمر سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مستعفی ہو کر بی این پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔