سیاسی جماعتیں مل کر کوئی قدم اٹھائیں نہیں تو یہ قدم جی ایچ کیو چلا جائے گا، مشاہد حسین سید
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹر مشاہد حسین سید نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سب سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں، سب سیاسی جماعتیں مل کر کوئی قدم اٹھائیں نہیں تو یہ قدم جی ایچ کیو چلا جائے گا اور تمام راستے راولپنڈی جا کر ٹہریں گے، عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے 3 بڑی سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں، نواز شریف خود صدر مملکت بن جائیں اور وزیراعظم پیپلز پارٹی کا بننے دیں۔
ایوان بالا (سینیٹ) کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کے روز لوگوں کو آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملا، عوام کی ووٹنگ سے ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے،تحریک انصاف کا واضح مینڈیٹ ملا ہے جس پر میں پی ٹی آئی کو مبارکباد دیتا ہوں۔
تحریک انصاف کو مبارکباد دیتا ہوں، مشاہد حسین سید
مشاہد حسین سید نے کہا کہ مشکلات کے باوجود تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے، ماضی کے ظلم کی داستاں کیا تھی اور رونا دھونا اپنی جگہ لیکن اب آگے بڑھنے کے 3 راستے ہیں، کیوں کہ ہمیں خدشہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات بحرانی کیفیت نہ لے آئیں۔
صورتحال کی جڑ تک جانا ہوگا
انہوں نے کہا کہ ہمیں بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے صورتحال کی جڑ تک جانا ہوگا، پچھلے عرصے میں 3 بڑے واقعات جمہوریت کے منافی ہوئے ہیں، 2014 میں ایک دھرنا دیا گیا تھا جو ہماری سیکیورٹی ایجنسیز نے منتخب حکومت کے خلاف اسپانسر کیا تھا، اس دھرنے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن بدقسمتی سے منتخب حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا۔
2014 میں سیکیورٹی ایجنسیز نے دھرنا اسپانسر کیا
’اس کے بعد 28 جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سیکیورٹی ایجنسیز نے سپریم کورٹ کو استعمال کرتے ہوئے کیا، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو جیل میں سیاسی قیدی بھیجا گیا ہے، پھر 10 اپریل 2022 کو پی ٹی آئی حکومت کو نکالنے کے لیے یہ فیز پھر دہرایا گیا۔‘
مشاہد حسین سید نے کہا کہ جب ہمارے ساتھ ہورہا تھا تو دوسری سائیڈ بڑی خوش تھی اور جب ان کے ساتھ ہورہا تھا تو ہم نے بڑی خوشیاں منائیں، بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد الیکشن کروا دیے جاتے۔
بشمول عمران خان جتنے سیاسی قیدی ہیں سب کو رہا کیا جائے
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ تب تک خود کچھ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ساتھی نہیں ہوتے، سازش ہوتی ہے تو مل کے ہوتی ہے، وقت کی ضرورت ہے کہ بشمول عمران خان جتنے سیاسی قیدی ہیں سب کو رہا کیا جائے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسنگ پرسنز کو بھی سامنے لایا جائے کیوں کہ دست شفقت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ صرف پنجاب لے لوگوں پر شفقت کی جائے۔ دست شفقت کا مطلب ہے سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، پنجاب جہاں بھی زیادتی ہو اسے غلط کہا جائے۔
لیگی سینیٹر نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام اسی صورت میں آسکتا ہے جب تین بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کرکام کریں، ماضی میں بڑی زیادتیاں ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی عدالتی قتل تھا، پیپلز پارٹی نے صعوبتیں برداشت کی، میاں نواز شریف کے خلاف بھی 1993، پھر 2017 میں سافٹ کلوز ہوئے، ان کے خلاف ملٹری ایکشن ہوا، ان کو ہتھکڑی بھی لگائی گئی۔
سیاسی قاعدین کو عام معافی دینی چاہیے
انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹی ٹی پی سے بات کر لی جنہوں نے دہشتگردی میں پاکستانیوں کو قتل کیا، بی ایل اے کے بارے میں ہم کہہ رہے ہیں کہ عام معافی دے دیں تو سیاسی قاعدین کو بھی عام معافی دینی چاہیے، کیوں کہ اب ماضی کا قصہ ختم ہوگیا ہے، 8 فروری نیا دن ہے کہ ہم مل کر آگے بڑھیں، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ قومی حکومت بنائیں یا تین بڑی سیاسی جماعتیں مل کر اتحادی حکومت بنائیں۔
’یہ جو رویہ ہے کہ ان سے بات نہیں کرنی، چاہے چور ہے، تو میں کہتا ہوں کہ کوئی کرپٹ ہے یا غدار ہے، عوام نے جسے ووٹ دیا ہے تو عوام کا ووٹ پیرامیٹر ہونا چاہیے، عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے، جس جماعت کو مینڈیٹ ملا اس کا احترام ہونا چاہیے، تحریک انصاف کو بھی رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔‘
یہ قدم جی ایچ کیو چلا جائے گا
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اگر کوئی قدم نہیں لیں گی تو یہ قدم جی ایچ کیو چلا جائے گا، پھر وہ فیصلہ کریں گے، جی ایچ کیو والے اسٹک لے کر آئیں گے، بندہ وردی میں ہوگا اور آکر کہے گا ’بیٹھ جاؤ، یہ کرو، وہ کرو۔‘ کیا سیاستدان یہ ہونے دیں گے، جو ماضی میں بھی ہوا، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی قدم اٹھائیں۔
نواز شریف وزیراعظم شپ پیپلزپارٹی کودیں اور خود صدر مملکت بن جائیں
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ نواز شریف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی قدم اٹھائیں۔ ’وقت کا تقاضا کہ نواز شریف اپنی لیڈر شپ دکھائیں، وزیراعظم شپ پیپلز پارٹی کو آفر کریں اور خود سربراہ مملکت بن جائیں، پی ٹی آئی کو بھی سسٹم میں شامل کریں، عمران خان سے بھی ملیں، کیوں کہ ماڈل ٹاؤن اور رائیونڈ کا اتنا بڑا فاصلہ نہیں ہے، ایک زمانے میں ان کی دوستی بھی تھی تو نواز شریف اس نظام کو آگے لے کے چلیں۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر سیاست دان ایسا نہیں کریں گے تو ان کے پاس قدم بڑھانے کا موقع ضائع ہو جائے گا اور تمام راستے راولپنڈی جاکر ٹہریں گے۔
غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں
انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ تاریخ سے سیکھیں اور ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں، غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں، پاکستان کے عوام نے 8 فروری کو دکھا دیا ہے کہ ان کا اعتماد ووٹ پر ہے، 8 فروری کو تبدیلی آگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جمہوریت کی پیداوار ہے، قائداعظم نے ووٹ کے ذریعے پاکستان بنایا تھا، ان کے ساتھ کوئی اسٹیبلشمنٹ اور فوج نہیں تھی، کوئی ایٹم بم نہیں تھا،برطانیہ بھی ان کے خلاف تھا، کانگریس بھی خلاف تھی لیکن عوام ان کے ساتھ تھے، قوت کردار تھا اور قیادت تھی، قائداعظم کی پیروری کر کے پاکستان کو مل کر جمہوری قوت بنائیں، سیاسی جماعتوں کے پاس یہ نادر موقع ہے جسے ضائع نہ کیا جائے۔