انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ کی بندش کیخلاف درخواستوں کی سماعت
کراچی (قدرت روزنامہ)سندھ ہائیکورٹ میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ ایکس کی بندش کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔عدالت نے الیکشن کے دن انٹرنیٹ بندش پر وزارتِ داخلہ سے جواب طلب کرلیا اور انٹرنیٹ کی بحالی سے متعلق جاری حکم امتناع میں توسیع کردی۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے پی ٹی اے کے وکیل سے سوال کیا کہ ایک طرف کہتے ہیں کچھ بند نہیں کیا، دوسری طرف سب بند پڑا ہے، مجبوری ہے یا کچھ اور اس کی وجوہات بتائیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ ایکس کی بندش کے خلاف سماعت میں پی ٹی اے کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ بند یا سِلو کرنے کے کوئی آلات نہیں۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا ایکس تو آج بھی بند ہے، اگر کوئی کمپنی پی ٹی اے ہدایت پر عمل نہیں کرتی تو اس کیخلاف کیا کارروائی کی ہے؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایکس کسی کے کہنے یا دباؤ پر کسی ملک میں اپنی سروس معطل کرسکتا ہے؟ بظاہر لگ رہا ہے سوشل میڈیا مینج کیا جارہا ہے لیکن کون کررہا ہے یہ بھی سامنے آجائے گا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سندھ ہائیکورٹ میں جواب جمع کروا دیا جبکہ وزارت داخلہ اور وزارت ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے جواب کے لیے مہلت طلب کرلی۔
عدالت میں پی ٹی اے کے وکیل نے کہا کہ وزارت داخلہ اور دیگر اداروں نے سیکیورٹی خدشات کی بناء پر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کی تھی، ہم نے 8 فروری کو سیلولر کمپنیوں کو سروس معطل کرنے اور 9 فروری کو سروس بحالی کی ای میل کی تھی۔ عدالت میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ کتنے معصوم ہیں؟ معصوم ہیں یا مجبور؟ مجبوری ہے یا کچھ اور اس کی وجوہات بتائیں، ایک طرف کہتے ہیں کچھ بند نہیں کیا، دوسری طرف سب بند پڑا ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ اتنے جذباتی مت ہوں ہمیں بھی اپنا ذہن استعمال کرنا آتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مفاد عامہ کا مسئلہ خراب نہ ہو، ملک میں مفاد عامہ اور نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے، ملک اس طرح کی بندش کر کے نہیں چلتا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بند کرنے کی وجوہات بتانے کے بجائے کہہ رہے ہیں کبھی اس نے کہا بند کردو، کبھی اس نے کہا بند کردو، اگر پی ٹی اے نے سروس بحال کرنے کا کسی کمپنی کو کہا اور اب بھی معطل ہے تو ایسی کمپنی کو اٹھا کر باہر پھینکیں، پی ٹی اے پاور فل کمپنی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ اگر آپ نے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند نہیں کی تو اسی لیے پوچھا تھا کہ ملک کے معاملات کون چلا رہا ہے، زمینی حقائق کو سمجھے بغیر ملک کے حالات کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، دنیا مہذب معاشرے سے چلتی ہے ایسے حالات پیدا کرنے سے دنیا آپ کو قبول نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ کہیں حالات کو سیاسی اور کہیں اور وجوہات سے کنٹرول کر کے چلایا جاسکتا ہے۔کسی کو دبا دو، معذرت کے ساتھ اب ہمارا معاشرہ ایسے چلنے والا نہیں ہے، قانون موجود ہے اگر پھر بھی کوئی تجاویز دے رہا ہے تو مزید اصلاحات کی جاسکتی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کرنے کی وجوہات جاننے کا کہا تھا۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے کہا 9 مئی کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا تھا، کچھ سیاسی جماعتوں کو مہم اور جلسے نہیں کرنے دیے گئے آپ سب نے دیکھا، آج کے دن تک انٹرنیٹ ٹھیک نہیں چل رہا، مختلف طریقوں سے کنٹرول کیا جارہا ہے، بچہ بچہ جانتا ہے۔
عدالت میں پی ٹی اے کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ بند کرنے یا سِلو کرنے کے کوئی آلات نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ یا موبائل سروس بند یا معطل کرنے کے آلات نہیں؟پی ٹی اے کے وکیل نے کہا کہ مطلب ہم صرف آرڈر کرتے ہیں، انٹرنیٹ بند کرنے یا کھولنے کے آلات ہمارے پاس نہیں ہیں۔
عدالت میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ 2009ء کے قانون کے تحت پی ٹی اے نے تمام موبائل فون کمپنیوں کو سروس بند کرنے کا کہا، بدنیتی تب ہوتی جب یہ قانون سازی 2023ء یا 2024ء میں کی گئی ہوتی۔جسٹس مبین لاکھو نے کہا کہ اس قانون کے تحت تو مخصوص علاقے میں انٹرنیٹ یا موبائل سروس بند کی جاسکتی ہے، پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ اللّٰہ کے فضل سے 8 فروری کو کوئی نقصان نہیں ہوا یہ الیکشن نکل گئے آگے کیا ہوگا یہ دیکھنا ہوگا، جو لوگ ملک چلا رہے ہیں یا پارلیمنٹیرین ہیں وہ موبائل فون ہی بند کردیں گے؟ بچہ بچہ سب جانتا ہے آپ ہمیں وہ بتائیں جو کوئی نہ جانتا ہو۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ جہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو وہاں سروس بند کی جاسکتی ہے، جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کر رہے ہوں وہاں بھی سروس بند کی جاسکتی ہے۔