مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد ضروری ہے، امدادی کیمپ لگانے کیلئے کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہوتی، ماہ رنگ بلوچ


گوادر(قدرت روزنامہ) طوفانی بارشوں سے متاثر گوادر کے عوام کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر میں لگایا گیا امدادی کیمپ پر گوادر پولیس نے محاصرہ کرلیا اور امدادی کیمپ کے ارد گرد پولیس کی بھری نفری تعینات کیا گیا۔ اس سلسلے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے امدادی کیمپ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 27 فروری کو گوادر میں ہونیوالی طوفانی سیلاب کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ٹیم 29 فروری سے گوادر میں موجود ہے ٹیم نے گوادر کے مختلف محلوں سمیت جیونی، پلیری، سربندن، جیونی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ آج بھی گوادر کے ارد گرد کے کئی سے چھوٹے چھوٹے گاﺅں کا گوادر سے زمینی رابطہ منقطع ہے اور وہاں اب بھی پانی موجود ہے۔ انھوں نے کہاکہ سیلاب سے گوادر عوام کو تین طرح کے نقصانات ہوئے ہیں۔ پہلا نقصان لوگوں کے گھروں کا ھوا ہے لوگوں کے گھر مکمل تباہ ھوچکے ہیں ہزاروں لوگ بے گھر ھوچکے ہیں۔
دوسرا نقصان ماھیگیروں کو ھوا ہے گوادر عوام کا پیشہ ماھیگیری ہے ان طوفانی بارشوں سے ماھیگیروں کے اسپیڈ بوٹس اور کشتیاں سمندر برد ہوچکے ہیں اور نقصان جیونی اور پیشکان کے لوگوں کی فصلوں کا ھوا ہے جیونی اور پیشکان کے ارد گرد کے علاقوں میں بھت سے لوگ کھیتی باڑی سے منسلک ہیں، اس سیلاب سے انکی فصیلیں برباد ہوچکی ہیں، لوگ مصیبت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ گوادر میں ایمرجنسی ڈکلیئر ھونے کے بعد سے اب تک ضلعی انتظامیہ کو ھم نے کسی جگہ نہیں دیکھا ہے گوادر کے نام پر جو امداد انکو مل رہی ہیں انھیں گوادر عوام تک نہیں پہنچائی جارہی ہے۔ آج بھی گوادر شہر کے گھروں میں پانی جمع ہے۔ 12 دنوں سے عوام آسمان تلے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ھوچکے ہیں لیکن انکی آواز کوئی نہیں بن رہا ہے کوئی میڈیا چینل اس بات کو سامنے نہیں لے آرہا ہے اور نہ ہی کوئی میڈیا چینل گراﺅنڈ میں موجود ہے کہ وہ گوادر عوام کی آواز کو آگے لے جاسکے۔
انھوں نے کہاکہ ایک ڈسٹرکشن سیلاب نے کی ہے اور ایک ڈسٹرکشن انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ھورہی ہے۔ اگر انتظامیہ شروع دن سے متحرک ھوتا اور لوگوں کے گھروں سے پانی نکالتا تو شاید آج کچھ گھر بچ جاتے لیکن انتظامیہ نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پورے بلوچستان میں امدادی کیمپ قائم کیے ہیں۔ ھم نے تمام جگہوں میں سروے کیا۔ ڈیٹا جمع کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے چھ جگہوں پر میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں۔ ھماری ٹیم وہاں وہاں گئی ہے جہاں اسٹیٹ کی کوئی مشینری نہیں ہے۔ جہاں راستے بھی منقطع ہیں۔
انھوں نے کہاکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک امدادی کیمپ جو کسی کے لیے نقصان دہ نہیں ہے جو لوگوں کی مدد کے لیے لگائی گئی ہے تاکہ اس مشکل حالات میں سرکار اور اسکی مشینری نے عوام کو نظر انداز کیا ہے تو عوام خود اپنی مدد آپکے تحت متاثرین کی مدد کرسکیں لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رضاکاروں کو ھراساں کیا جارہا ہے۔ کیمپ کا محاصرہ کیا جارہا ہے۔ رضاکاروں کی پروفائلنگ بھی کی جارہی ہے۔ کیمپ ختم کرانے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ گوادر سمیت خاران میں بھی جو امدادی کیمپ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے لگایا ہے وہاں بھی رضاکاروں کو مسلسل ھراساں کیا جارہا ہے اور انکو کہاجارہا ہے کہ اگر دوبارہ کیمپ لگایا تو آپکو اغوائ کیا جائیگا۔ انھوں نے کہاکہ ضلع گوادر کے لوگوں کے مسائل حد سے زیادہ ہیں۔ گوادر پورٹ سٹی ضرور ھوسکتی ہے لیکن یہاں کے مقامی لوگ سالوں سے انکو بنیادی سہولیات نہیں مل رہے ہیں۔ سرکار انکو سہولیات دینے کے بجا? ان سخت حالات میں جو متاثرین کی مدد کررہے ہیں اس امداد کو بھی روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان سخت حالات میں بھی عوام کو انتشار کی جانب لے جایا جارہا ہے۔
ھم بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی کو یہ امدادی کیمپ لگانے سے کوئی مسلہ ھورہا ہے تو وہ ھم سے رابطہ کریں لیکن کوئی سامنے سے ھمارے ساتھ بات کرنے بھی نہیں آرہا ہے۔ ھم نے این او سی کے لی? درخواست بھی دی ہے حالانکہ امدادی کیمپ لگانے کے لیے کسی این او سی کی ضرورت نہیں۔ ھمارا کیمپ کوئی مشتعل انگیز چیز نہیں ہے کہ جس کے لی? ھمیں انتظامیہ سے اجازت لینا چاہیے۔ امدادی کام انتظامیہ کو خود کرنا چاہی? تھا لیکن وہ نااہل ہیں اس لی? گوادر کے رضاکار اور بلوچ یکجہتی کمیٹی مل کر یہ کام کررہے ہیں ۔ ھم انتظامیہ سے یہی کہنا چاھتے ہیں کہ خدارا وہ اپنے اس اوچھے ھتکھنڈوں سے پیچھے ھٹیں۔ یہ کیمپ گوادر عوام کی مدد کے لی? لگائی گءہے۔ اب تک پورے بلوچستان میں پندراں سولہ امدادی کیمپس لگا? گ? ہیں اور ھم گوادر کے عام عوام کی آواز پوری دنیا تک اور اپنے بلوچ عوام تک پہنچانا چاھتے ہیں۔ اگر انتظامیہ نے ایسا کوئی عمل کیا تو اسکے بعد جو حالات ھونگے اسکے زمہ دار انتظامیہ ہوگی۔