ڈسٹرکٹ کونسل کا انتخاب ہارنے سے دوبارہ صدر منتخب ہونے والے آصف علی زرداری

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آصف علی زرداری پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل وہ 9 ستمبر 2008 سے لے کر 9 ستمبر 2013 تک ملک کے 11ویں صدر تھے۔ آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے صدر جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ وہ 2018 اور اس کے بعد حالیہ 2024 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
آصف زرداری اور مفاہمت کی سیاست
آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جس کی بنیادی وجہ ان کا وہ لچکدار رویہ ہے جس کے ذریعے وہ طاقت کے مراکز اور سیاست میں شراکت کے تصور کے قائل ہیں، 2008 کی ابتدا میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز جیسی حریف جماعت کے ساتھ حکومتی اتحاد قائم کیا، جو زیادہ عرصہ چل نہیں پایا اور پھر انہوں نے مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہیٰ کو ڈپٹی وزیراعظم بھی بنوایا جنہیں وہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ اسی طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آیا لیکن چند ایک واقعات کے علاوہ مخاصمت ایک حد سے آگے نہیں بڑھی۔ جمیعت علمائے اسلام ف اور ایم کیو ایم بھی ان کے ساتھ شریک اقتدار رہیں اور اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فن جانتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
68 سالہ آصف علی زرداری 26 جولائی 1955 کو سندھ کے ایک معروف جاگیردار حاکم علی زرداری کے گھر پیدا ہوئے جب کہ ان کی والدہ بلقیس سلطانہ زرداری سندھ مدرسۃ الاسلام کے بانی اور معروف ایجوکیشنسٹ حسن علی آفندی کی پوتی تھیں۔
جب زرداری نواب شاہ سے ڈسٹرکٹ کونسل کی سیٹ ہارے
آصف علی زرداری کو ابتدائی طور پر سیاست میں کامیابی نہیں ملی اور 1983 میں وہ اپنے آبائی علاقے نواب شاہ سے ڈسٹرکٹ کونسل کی نشست ہار گئے تھے۔
2008 سے 2013 تک عہد صدارت کے اہم واقعات
2008 کے انتخابات میں جب پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری تو اس کے سامنے فوری مسئلہ آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ کرنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے 9 مارچ 2008 کو آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان مری میں معاہدہ ہوا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے وہ ججز جنہیں جنرل مشرف نے ہٹایا تھا ان کو بحال کیا گیا۔
آصف زرداری کے حکومتی عہدے
1993 میں جب محترمہ بینظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں تو آصف علی زرداری ان کی کابینہ میں وزیر سرمایہ کاری بنے۔ مارچ 1995 میں آصف زرداری کو نئے بننے والے ادارے تحفظ ماحولیات کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ نومبر 1996 میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تو آصف علی زرداری کو لاہور سے گرفتار کیا گیا جب وہ دبئی جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب آصف زرداری صدام حسین سے ملے
فروری 1994 میں وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے آصف زرداری کو عراق کے صدر صدام حسین کے پاس بھیجا جنہوں نے ادویات کے بدلے 3 پاکستانی شہریوں کو رہا کرایا جو عراق اور کویت کی سرحد پر گرفتار ہوئے تھے۔
بینظیر بھٹو سے شادی نہیں نبھے گی؟
18 دسمبر 1987 کو آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو، سے شادی کی جس کے بارے میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شخصیت کے تفاوت کو لے کر اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ یہ شادی شاید زیادہ عرصہ نہ چل پائے، لیکن آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک اس رشتے میں مضبوطی سے بندھے رہے اور سیاسی زندگی میں بے شمار زیر و بم کے باوجود دونوں نے کامیابی ازدواجی زندگی گزاری اور بے نظیر بھٹو نے انہیں مرد حر قرار دیا۔
آصف زرداری اور سی پیک
پاکستان مسلم لیگ نواز عام طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری کا کریڈٹ لیتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس پر ابتدائی کام آصف علی زرداری کے دور صدارت میں شروع ہوا، جب چینی صدر لی کانگ 22 مئی 2013 کو پاکستان کے دورے پر آئے اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے ایوان صدر اسلام آباد مں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔
بے نظیر بھٹو کی خواہش پر سیاست سے دوری
شادی کے ابتدائی دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہش پر آصف علی زرداری سیاست سے دور رہے لیکن 1988 میں جب جنرل ضیاء الحق ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بنیں۔
آصف زرداری مسٹر ٹین پرسینٹ کیسے مشہور ہوئے؟
1990 میں جب بے نظیر کی حکومت برطرف ہوئی تو فوجی حکام کی ہدایات کے تحت آصف علی زرداری کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ آصف علی زرداری کو اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار سمجھا جاتا تھا۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد نگران حکومت قائم کی گئی جس کے وزیراعظم غلام مصطفٰی جتوئی تھے۔ غلام مصطفٰی جتوئی نے الزام عائد کیا کہ آصف علی زرداری اپنے اہلیہ کے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ہر سرکاری منصوبے کی اجازت کے لیے 10 فیصد کمیشن لیتے رہے۔ اس الزام کے بعد آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسینٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔
آصف زرداری پر 20 کروڑ ڈالر کک بیکس کا الزام
جنوری 1998 میں بین الاقوامی جریدے نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں الزام لگایا گیا کہ آصف زرداری نے فرانسیسی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن کے ساتھ 4 ارب ڈالر کے معاہدے میں سے 20 کروڑ ڈالر کک بیکس لیے ہیں۔
آصف علی زرداری اور جیل
آصف علی زرداری نے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ پہلی بار 1990 میں ان پر ایک برطانوی تاجر کے اغواء اور بھتہ خوری کا الزام لگا جس میں کہا گیا کہ انہوں نے مذکورہ تاجر کی ٹانگ سے بم باندھا۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے ان الزامات کو سیاسی اختلافات کا شاخسانہ اور من گھڑت قرار دیا۔ آصف علی زرداری نے 1990 کے انتخابات جیل سے لڑے اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی نے ان کو جیل میں بند کیے جانے کے خلاف قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ جبکہ 25 مارچ 1991 کو سنگاپور ایئرلائن کی ایک فلائٹ کو اغواء کیا گیا جس میں اغواء کاروں نے آصف علی زرداری کی رہائی کا مطالبہ کیا تاہم سنگاپور کمانڈوز نے تمام اغواء کاروں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم فروری 1993 میں وہ جیل سے رہا ہوئے اور 1994 میں انہیں الزامات سے بری کر دیا گیا۔
جب آصف زرداری کو جیل سے حلف برداری کے لیے اسلام آباد لایا گیا
مارچ 1997 میں جب آصف علی زرداری سینیٹر منتخب ہوئے تو اس وقت وہ کراچی جیل میں تھے اور دسمبر 1997 میں انہیں سخت سیکیورٹی میں کراچی سے اسلام آباد حلف برداری کے لیے لایا گیا۔
آصف زرداری اور سوئس بینک اکاؤنٹس
جولائی 1998 میں آصف علی زرداری پر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں منی لانڈرنگ کے الزامات لگے اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے بھی آصف علی زرداری پر منی لانڈرنگ کے نہ صرف الزامات لگائے بلکہ پاکستان حکومت کو کچھ دستاویزی شواہد بھی مہیا کیے۔ اسی دوران آصف علی زرداری پر میر مرتضٰی بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگے۔
آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کو سزائیں
1999 میں آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک سوئس کسٹم کلیئرنس کمپنی کو ٹھیکہ دینے اور ان سے کک بیکس لینے کے جرم میں پانچ، 5 سال قید کی سزا سنائی گئی اور 86 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس مقدمے کی تفتیش پاکستان کے احتساب بیورو اور سوئس حکام نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت بیرون ملک تھیں اور خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔
آصف زرداری کی تعلیم اور مشاغل
آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اوائل جوانی میں پولو کھیلنے اور باکسنگ کا شوق تھا اور ان کی ایک پولو ٹیم زرداری فور کے نام سے جانی جاتی تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول، کیڈٹ کالج پٹارو اور سینٹ پیٹرک ہائی اسکول سے حاصل کی۔