بلوچستان

بلوچ ماﺅں، بہنوں کو اسلام سے نکالنے والے خود پورے بلوچستان پر قابض ہیں، ماہ رنگ بلوچ


گواد(قدرت روزنامہ)بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر کی حقیقت کے عنوان سے عوامی آگاہی اجتماع کا انعقاد پدی زِر میرین ڈرائیو پر کیا گیا، جس میں خواتین سمیت عوام کی تعداد شریک رہی، اجتماع سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماءڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سندھ انڈیجینیس رائٹس کونسل اور عوامی ورکر پارٹی کے رہنماءحفیظ بلوچ، جیوز کے ڈائریکٹر کے بی فراق، انسانی حقوق کے کارکن ابیرہ اشفاق، سعدیہ بلوچ، اسکالر ہزاران بلوچ، صبغت اللہ شاہ، نبشتہ کار جاوید حیات، ناخدا رسول بخش، ماسی بیگم، فنکار اللہ بخش ہلیپ، ڈولی بیگ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گوادر کی ترقی کی حقیقت ہم سب کے سامنے ہے ہر بارش میں پورا شہر پانی میں ڈوبتا ہے، عوام اور ماہیگیر دربد ہوجاتے ہیں، دو گوادر ہیں ایک گوادر اسلام آباد، سی پیک، وسط ایشیا تک گیٹ وے اور ایک گوادر ہم سب کے سامنے جس میں انڈیجینیس گوادری رہتے ہیں، کھنڈر نما شہر۔ بارش سے تباہ شدہ شہر گزشتہ دس دنوں سے ہم گوادر میں ہیں، طوفانی بارشوں سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں۔ ان کی امداد کیلئے گوادر سمیت بلوچستان بھر میں کیمپ قائم کردیے گئے ہیں، ریاست نے ہمارے امدادی کیمپ اکھاڑ دیے، منع کیا جارہا ہے، کارکنوں اور رضاکاروں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی عوام کی حوصلہ افزائی اور انکے دکھ درد اور مصیبت کے وقت ساتھ دینے کیلئے یہاں موجود ہے ہمارے رضاکار سروے اور ڈیٹا جمع کر رہے ہیں، ترقی کے نام پر گوادر کی زمین کو قبضہ اور یہاں کے لوگوں کو منتقل کرنے کا اسلام آباد کا منصوبہ ہے۔ ریاست نے بلوچستان کے ہر شہر میں اپنا الگ شہر بسا رکھا ہے، جہاں دنیا و جہاں کی سہولتیں میسر ہیں لیکن عوام کی حالت سب کے سامنے ہے۔ علاقائی تعصب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، دوسروں کے دکھ درد اور اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے جدوجہد اور میدان عمل زندگی ہے، احمد ساد، کامریڈ قیوم، حمید بلوچ، رحمن عارف، محبوب واڈیلہ نے اپنی سرزمین کے خاطر قربانیاں دیں، ہر بلوچ کا گھر ماتم کدہ ہے، قتل صرف بندوق سے نہیں کیا جاتا، ذہنی اذیت اور ذہنی مفلوج کرنا، دھونس دھمکی تاکہ حقوق کیلئے آواز بلند نہیں کیا جاسکے بھی ذہنی قتل ہے اور یہ جسمانی قتل سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ ریاستی غلامی کو دوام بخشتی ہے، غلامی کو قبول کرلیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنی سرزمین، مٹی اور سمندر سے محبت رکھتا ہے اس کا دکھ درد سمجھتا ہے، ترقی کے نام پر ذہن سازی کرکے دھوکا دیا جارہا ہے 20 سال گزرچکے ہیں گوادر پورٹ کی تعمیر کے نام پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن نتیجہ سامنے ہے، بارشوں میں پورا شہر ڈوب جاتا ہے، سوئی گیس سے نکلا گیس، سیندک، ریکوڈک کے بلین ڈالرز سے پوری ریاست چل رہی ہے لیکن بلوچ اور بلوچستان کی حالت سب کے سامنے ہے، مچھ بولان سے نکلنے والے کوئلہ سے پوارا ملک روشن اور بلوچستان اندھیرا، ماﺅوں، بچوں کے پاﺅں میں جوتے تک نہیں، اسکول نہیں، پینے کیلئے پانی نہیں، بلوچستان کا درد ایک ہے، گوادر بلوچستان کی ملکیت ہے۔ مقررین نے کہا کہ گوادر کی ترقی سمندر پر قبضہ، زمینوں پر قبضہ گیری ہے، کوسٹ گارڈز اور نیوی پیپلز پارٹی کے تحائف ہیں، وہ سیاسی ورکر جو سمجھتے ہیں کہ پی پی بلوچ اور بلوچستان کی خیرخواہ ہے ذوالفقار بھٹو کی تاریخ دیکھیں ہم 200 گمشدہ نوجوانوں کی ماﺅں کے ساتھ اسلام آباد پہنچے، ریاست کا حکم جاری ہوا کہ بلوچوں کو اسلام آباد سے نکال دو اور خود پورے بلوچستان پر قابض ہیں اور شہر میں اپنا الگ شہر بسا رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ گوادر میں 30 سال قبل بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں لیکن کبھی تباہی نہیں ہوئی، حالیہ بارش نے جو تباہی پھیلائی یہ ان نام نہاد ترقی کے منہ پر طمانچہ ہے، بارشوں نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا۔ سمندر ٹرالرز کی زد میں ہے، گوادر پورٹ کی تعمیر کی جگہ گوادر کے ماہیگیروں کیلئے زرخیز خزانہ تھا لیکن وہ بھی چھینا گیا۔ آزاد سمندر اب گھیراﺅ میں ہے، اجتماع میں خواتین کی تعداد نے شرکت کی۔

متعلقہ خبریں