حجاب نہ پہننے پر مولوی کی ایرانی خاتون کی تصاویر لینے کی ویڈیو وائرل


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایران میں ایک مولوی اور ایرانی خاتون کے درمیان بحث کی ویڈیو وائرل ہوگئی ہے جس سے متعلق بتایا جارہا ہے کہ مولوی نے مبینہ طور پر خاتون کی بغیر اجازت تصاویر بنائیں جس میں مذکورہ خاتون بغیر حجاب اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
جرمن میڈیا ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وسطی شہر قم میں ایک خاتون حجاب کے بغیر اپنے بیمار بچے کے ساتھ کلینک کے فرش پر بیٹھی ہے، اس دوران ویڈیو میں ایک مولوی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو مبینہ طور پر اپنے موبائل فون سے خاتون کی تصاویر لے رہے ہیں۔
جب خاتون کو اندازہ ہوا کہ اس کی بغیر اجازت تصاویر لی جارہی ہیں تو وہ فوراً مولوی کا پیچھا کرتی ہے اور پھر دونوں کے درمیان بحث شروع ہوجاتی ہے۔
ویڈیو میں متاثرہ خاتون کو مولوی سے کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ’اپنا موبائل مجھے دو، تمہیں میری تصویر لینے کی اجازت کس نے دی؟ میں اپنے بیمار بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی اور تم میری تصویر لے رہے ہو؟ مجھے اپنا فون دو۔‘
اس دوران دیگر خواتین بھی جمع ہوجاتی ہیں لیکن مولوی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
ہسپتال کے اس واقعے نے ایرانی شہریوں میں ایک بار پھر حکومت کے خلاف غصے کی لہر دوڑ آئی ہے۔
البتہ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ویڈیو میں خاتون کے ساتھ کیا ہوا، تاہم ایران کے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’قم کی خاتون کہاں ہے؟‘ ٹرینڈ کررہا ہے۔
اس کےعلاوہ یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ یہ ویڈیو کتنی پرانی ہے۔
4 افراد گرفتار
دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے واقعے کی ویڈیو لندن میں قائم غیر ملکی نشریاتی ادارے ’ایران انٹرنیشنل‘ کو دینے کے شبہ میں 4 افراد کو گرفتار کر لیا ہے، اس ادارے کو تہران کے حکام ’دشمن میڈیا‘ کے طور پر شمار کرتا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قم کے ڈپٹی پراسیکیوٹر روح اللہ مسلمہقانی نے کہا کہ ’دشمن (ایران) بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ ویڈیو شیئر کرنے کے ذمہ دار چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ’
ردِعمل
ڈپٹی پراسیکیوٹر روح اللہ مسلمہقانی نے کہا کہ ’ یہ بات واضح ہے اور ہمیں یقین ہے کہ معاشرے میں تقسیم اور بدامنی پھیلانے اور بغاوت پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔’
ایرانی رکن پارلیمنٹ ولہدی باقری نے کہا کہ اگر مولوی نے ویڈیو بنانے سے قبل اجازت لی ہوتی تو اس کے اس عمل پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، یہ ویڈیو حجاب اور اس سے متعلق بل کے مخالفین کی چال ہو سکتی ہے۔
سیاسی کارکن عباس عابدی نے بتایا کہ ’مشہد میں ایک بے گھر خاتون نے اپنا سر کچرے کے ڈبے سے ڈھانپ لیا اور سخت سردی سے اگلی صبح اس کی موت ہوگئی، لیکن اس کی فلم بندی کے لیے وہاں کوئی مولوی موجود نہیں تھا۔‘
ایک سوشل میڈیا صارف نے وائرل ویڈیو کی تصویر کو 1979 کی ایک مشہور تصویر سے موازنہ کیا۔
خیال رہے کہ سنہ 2022 میں اخلاقی پولیس کی حراست میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت ہو گئی تھی جس کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، انہیں ’غیرمناسب حجاب‘ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین پر حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے، حجاب نہ پہننے والی خواتین کے لیے سزاؤں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس کی 10 سال تک قید ہو سکتی ہے۔