معیشت کے استحکام کو برقرار رکھا جائے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نو منتخب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے کوٹے کے حساب سے بڑا پروگرام لینے کی کوشش کرے گا۔ ٹیکس نظام میں شفافیت حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، قومی آمدنی میں ٹیکسوں کا حصہ 10 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراطِ زر کی بلند شرح کے ہاتھوں ملکی معیشت مشکلات میں رہی ہے تاہم اب تھوڑی سی بہتری دکھائی دی ہے۔ امید ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بہت جلد سود کی شرح نیچے لائے گا۔
پاکستان کی معیشت کو اس وقت سست روی، کم نمو اور افراط زر جیسے مسائل کا سامنا ہے، نئے وزیر خزانہ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کا نیا معاہدہ محفوظ کرنا اور اگلے ماہ آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی نئی قسط کی وصولی ایک اہم چیلنج ہے۔
گزشتہ موسم گرما میں پاکستان آئی ایم ایف سے مختصر مدت کے بیل آؤٹ کی بدولت ڈیفالٹ سے نکل گیا تھا، تاہم یہ پروگرام اگلے ماہ ختم ہوجائے گا اور نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر کی معیشت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی انتظامات پر بات چیت کرنا ہوگی۔ بیل آؤٹ سے قبل پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبات کے متعدد اقدامات اٹھانے پڑے تھے، جن میں بجٹ پر نظر ثانی، بینچ مارک شرح سود میں اضافہ اور بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔
فنچ نامی ریٹنگ ایجنسی نے کہا ہے کہ نئی حکومت کوکئی اہم مسائل کا سامنا کرنا ہوگا جن میں پاکستان کو فوری طور پر مختلف بین الاقوامی شراکت داروں سے رقم حاصل کرنا اہم مسئلہ ہے کیونکہ ملک کی مالی صورتحال پہلے ہی کمزور ہے۔ آئی ایم ایف کی معاونت کے بعد سعودی عرب اوریو اے ای جیسے ممالک بھی پاکستان کی معاونت کے لیے آگے آئیں گے۔
رپورٹ میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے فراہم کردہ سہولیات کو سراہا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ڈالر بانڈز پر منافع کی شرح 25 فیصد سالانہ ہے جو ایشیا میں بلند ترین سطح ہے، علاوہ ازیں ملکی کرنسی کی قدر میں بھی ایک فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
نو منتخب وزیر خزانہ نے دوران گفتگو شرح سود میں کمی کا عندیہ ظاہر کیا ہے، دراصل شرح سود اضافے سے عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ جب بینک زیادہ شرح سود پر قرضے دیں گے تو صنعت، تجارت و زراعت کی کاروباری لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو وہ صارفین سے وصول کرتے ہیں۔
جب بینکوں کی جانب سے مہنگے قرضے جاری کیے جائیں گے تو اس کا اثر سرمایہ کاری پر بھی پڑے گا کیونکہ کاروباری افراد زیادہ شرح سود پر قرضے لے کر اپنے کاروبار میں توسیع کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جب سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو کاروبار میں توسیع نہیں ہو گی اور ملازمتیں کم پیدا ہوں گی جو ایک عام آدمی کے لیے ہوتی ہیں۔
اسی طرح ملکی معیشت میں گروتھ سست روی کا شکار ہو چکی ہے۔ گیس و بجلی اور خام مال کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے صنعت و تجارت کا شعبہ پریشانی کا شکار ہے اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے اب ان شعبوں کی کاروباری لاگت مزید بڑھ چکی ہے، دراصل پاکستان کی معیشت میں زیادہ شرح سود اور روپے کی کم قیمت کو جذب کرنے کی سکت نہیں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ معاشی گروتھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب متوقع طور پر شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں میں کمی اور معاشی سست روی میں بہتری آئیگی، معاشی پہیہ کو چلانے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کی معیشت کو درپیش بڑے معاشی خطرات میں میکرو اکنامک عدم توازن، بڑھتا ہوا قرضہ، خسارے میں جاتی سرکاری کمپنیاں، ماحولیاتی تنزلی، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے خطرات، صوبائی مالیاتی ڈسپلن اور گورننس کے چیلنجز شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں افراط زر میں اتار چڑھاؤ رہا، روپے کی قدر میں خاطر خواہ تنزلی ہوئی، مہنگائی بڑھنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے، کرنسی کی قدر میں اضافہ بھی توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی مالی خسارے میں کمی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بیرونی قرضہ مجموعی حکومتی قرضے کا 40.8 فیصد ہے، مختصر المدت قرضے میں اضافے سے ری فنانسنگ چیلنجز بڑھے ہیں اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوئی، مالی خسارے میں اضافہ ہوا جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہوئی۔
معیشت کی بہتری کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، اس کے لیے سستے قرضے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، تاہم تجارتی خسارے اور مہنگائی میں اضافے کے باعث مانیٹری پالیسی سخت کی گئی ہے۔ حکومت برآمدی شعبے کے لیے سستے قرضے یقینی بنائے تاکہ برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ڈالر کی قدر کو مستحکم کیا جاسکے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ قومی آمدنی یا پیداوار اس وقت بڑھتی ہے جب ملک میں مزدوری یا سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے یا بنیادی طور پر جب فنی مہارتوں میں ترقی ہوتی ہے۔ یعنی جب ملک میں تعلیم، مہارتوں اور تکنیکی صلاحیتوں کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن یہ ہمارے لیے کبھی ترجیح نہیں رہا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 58 فیصد بچے یا تو نشوونما پانے سے محروم ہیں یا موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور جہاں 10 سال کے 78 فیصد بچے ٹھیک سے پڑھ نہیں پاتے، پیداواری صلاحیت میں اس طرح کی بہتری ایک خواب ہی رہ جاتا ہے، تاہم ہمیں مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بجٹ خسارے کو کم کرنا ہوگا۔
ترقی کے حصول کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور ان کی اور ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے مارکیٹ میں ایک لچکدار شرح تبادلہ کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ معقول معاشی پالیسی بنانے سے انحراف سے شاید ہمیں قلیل مدتی ریلیف تو مل سکتا ہے، لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، اس سے طویل مدتی نقصان بھی ہوگا۔
دوسری جانب معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مہنگائی کی حالیہ لہر نے سفید پوش طبقے اور امیروں کے کَس بل بھی نکال دیے ہیں۔ آٹا، دالیں،گھی، مرغی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ ماہ فروری میں افراط زرکی شرح 31 اعشاریہ 5 فیصد رہی جس نے ملک میں مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں 1975 میں افراط زر 29 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ رواں برس فروری میں افراط زر کی شرح 31.5 فیصد رہی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ 31.5 فیصد افراط زر پٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ ادھر شرح سود میں اضافے کے ساتھ رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت نے نکال دی۔
آمدن میں کمی اور بڑھتی مہنگائی کا اثر صنعتی سرگرمیوں پر بھی پڑا۔ زرعی اور صنعتی پیداوار کے لیے خام مال اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے بھی جلتی مہنگائی پر مزید تیل ڈالا۔ ڈالر 285 روپے کو چھو چکا۔ بجلی فی یونٹ 17 روپے مہنگی ہوئی جب کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔ گیس اور ایل این جی کی قیمتوں میں 63 اور 72 فیصد اضافہ ہوا، یوں صنعتی اور زرعی پیداواری عوامل مہنگائی کا شکار ہوئے۔
حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت نے صوبے کی فلور ملز مالکان کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے کوٹے کی گندم خود خرید کر سرکاری گوداموں میں جمع کروائیں اور وہاں سے اسٹیٹ بینک اور محکمہ خوراک کے مجاز بینکوں میں خریداری رسیدیں جمع کرا کے چالان لیں۔ اس طرح فلورملز کو من مانی کرنے، سرکاری کوٹے سے زائد گندم وصول کرنے اور گندم کی افغانستان اسمگلنگ کی روک تھام ہوگی جب کہ محکمہ خوراک دیگر صوبوں کی فلور ملز اور نجی پارٹیوں کو سرکاری گندم کی فروخت بھی کرسکے گا۔
رمضان المبارک میں گوکہ نئی حکومت نے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن مہنگائی سے تنگ آئے عوام کا کہنا ہے کہ پھلوں کا تو سوچیں بھی نہ، اشیائے ضروریہ ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسے میں تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ گھرکا کرایہ دیں، یوٹیلیٹی بلز ادا کریں، بچوں کی فیسیں دینے کے بعد تنخواہ بچتی ہی کہاں ہے؟ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت صرف ہم سے قربانی نہ مانگے، ہمیں گھر کا چولہا جلائے رکھنے کا حل بھی بتائے۔
پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے وہ فرضی اہداف کی بجائے عملی انتظامی اقدامات کے متقاضی ہیں، اس وقت پاکستان کی معیشت کو درست سمت میں گامزن رکھنے، توانائی کے شعبے میں سبسڈیز میں کمی اور ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ ڈھانچہ جاتی اہداف کو ہر صورت میں مکمل کرنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت کو نمو کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔