پی ٹی اے نے خفیہ اداروں کو موبائل فونز ریکارڈنگ تک رسائی دی ہوئی ہے، ٹیلی کام آپریٹرز


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) ٹیلی کام آپریٹرز نے عدالت میں انکشاف کیا ہے ملکی خفیہ اداروں کو موبائل فونز ریکارڈنگ سسٹم تک رسائی حاصل ہے ہم سسٹم تک پی ٹی اے کو رسائی دے دیتے ہیں وہ جس ایجنسی کو چاہتی ہے رسائی دے دیتی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیک کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
موبائل فون کمپنیز کے وکیل کی جانب سے دلائل دیے گئے۔ وکیل نے کہا کہ ریکارڈنگ سسٹم بھی لگا ہوا ہے چابی بھی ان کے پاس ہے وفاقی حکومت کا اختیار ہے، حکومت اور ایجنسیز کو سسٹم تک رسائی حاصل ہے وہ سسٹم ان کے دائرہ اختیار میں ہے، ہم سسٹم تک پی ٹی اے کو رسائی دے دیتے ہیں وہ جس ایجنسی کو چاہتی ہے رسائی دے دیتی ہے ، پی ٹی اے اس حوالے سے بہتر جواب دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس کیس میں متعلقہ کالز ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی۔
جسٹس بابر ستار نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب یہ رویہ درست نہیں ہے، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، تین سیکرٹریز نے جواب جمع کرایا کہ فون ٹیپنگ کی کوئی اجازت نہیں دی گئی، آج آپ آ کر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا جواب صرف اس کیس سے متعلق تھا۔
جسٹس ستار نے کہا کہ آپ سے بار بار یہ بات پوچھی ہے کہ اگر کوئی سسٹم موجود ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں، وفاقی حکومت نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ان چھوٹے معاملات میں مداخلت ہی نہیں کرتے، اگر کسی نے غلط رپورٹ جمع کرائی ہے تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ سب کس قانون کے تحت ہو رہا ہے؟ آٹھ ماہ سے پوچھ رہا ہوں کس فریم ورک کے تحت آپ کام کر رہے ہیں، آپ کو پتا تو ہونا چاہیے ناں کہ مجاز ایجنسی کون سی ہے جس کو آپ رسائی دے رہے ہیں؟عدالت نے پیمرا سے استفسار کیا کہ پچھلے دو سال سے غیر مصدقہ جو آڈیوز چلائی جا رہی ہیں کیا اس حوالے سے آپ کی کوئی ہدایات ہیں؟
وکیل پیمرا نے کہا کہ ہم تو ایسی آڈیو نشر کرنے کو ممنوع کرنے کا آرڈر ہی نکال سکتے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق ہم نے ہدایات جاری کیں ہوئی ہیں۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ دو دن آپ دیکھتے رہتے ہیں غیر مصدقہ مواد چلتا رہے ؟ پرائیویٹ ، غیر مصدقہ چلنے والا مواد پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے کسی بلیک میلنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے جسٹس بابر ستار کو بتایا کہ 90 فیصد موبائلز میں وائرس ہوتا ہے، کیمرہ بھی آپریٹ کیا جاسکتا ہے، اسرائیل کی ایک کمپنی نے پیگاسس سافٹ ویئر بنایا جو موبائل کو متاثر کرتا ہے، یہ مشکل کام نہیں، ایک منٹ لگتا ہے اور موبائل ہیک کیا جا سکتا ہے، آپ فون میرے پاس چھوڑ کر واش روم جائیں تو اتنی دیر میں اپنا موبائل کنکٹ کر کے مکمل رسائی لی جا سکتی ہے۔ جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب غیرقانونی فون ٹیپنگ ہو رہی ہے؟
وکیل ٹیلی کام آپریٹرز نے کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کی لائسنس پالیسی میں لیگل انٹرسیپشن کی شق موجود ہے، ٹیلی کام آپریٹرز پی ٹی اے کے لائسنس پالیسی کے پابند ہوتے ہیں، ٹیلی کام آپریٹرز کا لیگل انٹرسیپشن میں کوئی کردار ہی نہیں۔ جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا لیگل انٹرسیپشن کا کوئی سسٹم موجود ہے؟
وکیل ٹیلی کام آپریٹرز نے کہا کہ پی ٹی اے کا سسٹم لگا ہوا ہے اور اس کی چابی وفاقی حکومت کے پاس ہے، یہ معاملہ وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور متعلقہ ایجنسی کے درمیان ہوتا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کوئی آپ کے ڈیٹا اسٹریم میں جاتا ہے اور آپ کو معلوم ہی نہیں؟ کیا ٹیلی کام آپریٹرز کو شامل کیے بغیر سسٹم استعمال کیا جا سکتا ہے؟ فون ٹیپنگ کی متعلقہ اور مجاز ایجنسی کون سی ہے؟
وکیل ٹیلی کام آپریٹرز نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو جہاں پی ٹی اے کہتا ہے وہاں سسٹم لگا دیتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیولیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی کردی اور ٹیلی کام آپریٹرز کے وکیل کو آئندہ سماعت تک تحریری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔