ٹیکس آمدنی بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف نے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کردیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے نئے پروگرام کے لیے پاکستان سے مزید اقدامات کا مطالبہ کردیا . پاکستان میں موجود آئی ایم ایف مشن اور پاکستان کی معاشی ٹیم کے مذاکرات کے پہلے دن کی پیش رفت سامنے آگئی، جس کے مطابق ٹیکس آمدنی بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف نے ڈو مور کا مطالبہ کیا ہے .


آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات میں شرکت کے لیے وزارت خزانہ، توانائی اور ایف بی آر حکام نے شرکت کی . آئی ایم ایف حکام کو وفاقی وزیرتوانائی مصدق ملک نے بریفنگ دی . جس پر آئی ایم ایف نے تعمیراتی شعبے کے لیے خصوصی ٹیکس نظام کو جلد از جلد ختم کرنے کا مطالبہ کیا .
آئی ایم ایف نے صنعتی اداروں کے لیے ٹیکس مراعات دینے کے لیے ایف بی آر اور کابینہ کے صوابدیدی اختیار منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا، آئی ایم ایف نے سفارش کی کہ مستقبل میں دی جانے والی ٹیکس مراعات، لاگت اور فوائد کی باقاعدہ تشخیص سے مشروط ہونا چاہیے . آئی ایم ایف نے غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے ٹیکس چھوٹ منسوخ کرنے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت کردی، اور ایف بی آر کو خیراتی اداروں کو دی جانے والی موجودہ ٹیکس مراعات کا دوبارہ جائزہ لینے پر غور کیا گیا .
آئی ایم ایف نے نیشنل ٹیکس کونسل کے ٹی اور آرز میں توسیع کرنے اور نیشنل ٹیکس کونسل کے ٹی او آرز میں ٹیکس ریٹس میں ہم آہنگی کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا . زرعی آمدن اور پراپرٹی ٹیکس کی بنیاد میں توسیع کو بھی نیشنل ٹیکس کونسل کے ٹی او آرز میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا .
آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں سے تعاون بڑھانے کا کہا تاکہ صوبائی ٹیکسوں کی وصولی اور صوبائی ٹیکس قوانین کو نفاذ کیا جا سکے، آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ میں ٹیکس پالیسی یونٹ قائم کرنے کی بھی سفارش کی ہے .
آئی ایم ایف نے ایف بی آر اور دیگر اداروں کے ساتھ ڈیٹا کے تبادلے کے لیے مفاہمت کی یاداشتیں اور پروٹوکول تیار کرنے کی بھی سفارش کردی،
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) حکام نے بھی آئی ایم ایف وفد کو بریفنگ دی اور بتایا کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر کفالت پروگرام کے تحت 93 لاکھ متاثرین کو ادائیگیوں کے لیے نیا بینکنگ ماڈل متعاوف کروا دیا گیا ہے، بی آئی ایس پی نئے ادائیگی کے نظام سے سالانہ 2 ارب روپے کی بچت کرے گا، مزید بینکوں کی شمولیت سے ادائیگی کے طریقہ کار میں زیادہ شفافیت اور سہولت پیدا ہوگی .

. .

متعلقہ خبریں