کراچی: ماہ رمضان میں گائے، بکرے کے گوشت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قیمتوں پر قابو پانے کے مؤثر طریقہ کار کی عدم موجودگی میں پاکستان کے روایتی گوشت کے پکوان، بکرے اور گائے کے گوشت کی ترکیبیں رمضان کے دوران کراچی میں متوسط ​​طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں کیونکہ تاجروں کے نرخوں اور سرکاری طور پر مطلع ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں فرق وسیع ہوگیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گوشت کے تاجروں نے پہلے ہی سرکاری نرخوں کو مسترد کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر قیمتوں کو ’معقول‘ نہ بنایا گیا تو وہ اپنا کاروبار بند کر دیں گے۔
دوسری جانب شہر کی انتظامیہ کا نام نہاد ’منافع خوری‘ کے خلاف کریک ڈاؤن اب تک سرکاری نرخوں کو نافذ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا کیونکہ گوشت فروش اب بھی اپنی مرضی کی قیمت پر اشیا فروخت کر رہے ہیں۔
شہر بھر میں لوگ بکرے کے گوشت کے لیے 2000 سے 2300 روپے فی کلو اور گائے کے گوشت کے لیے 1200 سے 1400 روپے فی کلو ادا کر کے مشکلات کا شکار رہے، تاہم شہری انتظامیہ نے مٹن کی قیمت 1700 روپے اور گائے کے گوشت کی قیمت 800 روپے فی کلو مقرر کی ہے۔
میٹ مرچنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن (ایم ایم ڈبلیو اے) کے صدر ہارون قریشی نے ڈان کو بتایا کہ بیوپاریوں کے لیے ’غیر معقول‘ سرکاری طور پر مطلع شدہ قیمتوں پر گوشت فروخت کرنا ہر طرح سے ناممکن ہے کیونکہ ہول سیل ریٹس میں اضافے اور گوشت کی برآمد کی وجہ سے ریٹیل قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کی جانب سے کراچی کی ایک ہی مویشی منڈی سے بڑی تعداد میں جانور اٹھائے جارہے ہیں جس سے طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوگیا ہے اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ایم ایم ڈبلیو اے کے سربراہ نے گوشت کے سرکاری نرخوں کو ’ایکسٹرا ٹریسٹریل ریٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے لاگو کرنا ناممکن قراردیا ہے اور گوشت خوردہ فروشوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی جس میں بھاری جرمانے اور ان کی دکانوں کو سیل کرنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن گوشت بیچنے والوں کے خلاف ’غیر منصفانہ‘ کارروائیوں کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
انہوں نے دھمکی دی کہ اگر انتظامیہ نے ہمارے ساتھ زیادتی جاری رکھی تو ہم سخت احتجاج کریں گے اور ہم اپنے کاروبار کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر سکتے ہیں۔
ہارون قریشی نے کہا کہ کمشنر نے گوشت کی قیمتوں کا اعلان کرتے وقت گوشت فروخت کرنے والوں سے مشورہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمشنر نے انہیں یقین دلایا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ساتھ نرخوں پر نظر ثانی کی جائے گی لیکن قیمتیں ان کی رضامندی کے بغیر طے کی گئیں۔
گوشت کے تاجر رہنما نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کمشنر کا دفتر سنگین مسائل سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے لاٹھی کے زور سے نرخوں کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، انہوں نے مزید بتایا کہ مہنگے جانور خرید کر گوشت کم قیمت پر فروخت کرنا ناممکن ہے۔
ہارون قریشی کا کہنا تھا کہ شہری انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کرے جس سے برآمد کنندگان کو مقامی منڈیوں میں خریداری سے روکا جا سکے تاکہ جانوروں کی قیمتیں کم ہوں، اس سے گوشت کی قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی۔
ایم ایم ڈبلیو اے نے مطالبہ کیا کہ ایسوسی ایشن کی تجاویز سے نئی قیمتیں مقرر کی جائیں۔
ملک کی گوشت اور گوشت کی تیاری کی برآمدات مالی سال 2024 کے ابتدائی 7 مہینوں میں بڑھ کر 70 ہزار 458 ٹن (28.8 کروڑ ڈالر) ہوگئیں جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 50 ہزار 235 ٹن (22.7 کروڑ دالر) تھیں، جس سے مقدار میں 40 فیصد اور قدر میں 27فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
تاہم، برآمدات نے گزشتہ سال کی اسی مدت میں 4 ہزار 516 ڈالر کے مقابلے میں 4 پزار 89 ڈالر کی کم اوسط فی ٹن قیمت حاصل کی۔
اپنے موجودہ گوشت کو ٹھنڈا کرنے اور منجمد کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ، برآمد کنندگان چین اور جنوبی افریقہ جیسی نئی منڈیوں میں پکے ہوئے گوشت اور بغیر ہڈی کے منجمد گوشت جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، وسطی آزاد ریاستوں اور عراق میں گرمائش میں ٹریٹ ہوئے ہوئے گوشت اور پکے ہوئے منجمد گوشت کی ترسیل کو متنوع بنا رہے ہیں۔