حکومت کم نجی قرضے جاری کرنے پر بینکوں سے ٹیکس وصول کریگی


کراچی(قدرت روزنامہ) حکومت کم نجی قرضے جاری کرنے پر بینکوں سے ٹیکس وصول کریگی . حکومت تجارتی بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی ان کے ڈپازٹس کے50 فیصد سے کم رہنے پر 10 سے 16 فیصد تک اضافی ٹیکس وصول کرے گی، اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مقصد فنانسنگ کی سپلائی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو تیز کیا جاسکے .


واضح رہے کہ2023 میں شرح سود 22 فیصد کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد متعدد کاروبار اور گھرانے قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکے اور دیوالیہ ہوگئے، اور اس طرح برے قرضے 14 سال کی بلند ترین سطح 62 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے .
ٹاپ لائن ریسرچ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن بینکوں کا ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو 40 فیصد سے کم ہوگا، وہ اپنی آمدنی پر 16 فیصد ٹیکس ادا کریں گے، جبکہ 40 فیصد سے زیادہ اور 50 فیصد سے کم ریشو والے بینکوں کو اپنی آمدنی پر 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جبکہ50 فیصد سے زیادہ والے بینکوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوگا .
عارف حبیب لمیٹڈ کی معاشی ماہر ثناتوفیق نے بتایا کہ جو بینک 2022 میں یہ ٹیکس ادا کرچکے ہیں، ان کو 2023 میں اس ٹیکس سے مستشنیٰ قرار دیا گیا تھا، تاہم، 2024 میں ان کو یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ استشنیٰ صرف ایک سال کے لیے ہی دیا گیا تھا .
انھوں نے کہا کہ بینکس اے ڈی آر کو متوازن دکھانے کیلیے دسمبر میں بھاری ڈپازٹس لینے سے اجتناب کرتے ہیں، جس سے ان کا اے ڈی آر ریشو بہتر رہتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے نیا میکانزم تیار کرے اور اے ڈی آر ریشو کو سالانہ کے بجائے ماہانہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر جانچا جائے .
واضح رہے کہ بلند شرح سود کی وجہ سے اکثر بینکس قرضے جاری کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، کیوں کہ بلند شرح سود پر دیے گئے قرضوں کی واپسی کے امکانات کم ہوتے ہیں اور مقروض خود کو دیوالیہ ظاہر کردیتے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں