ججوں کے خط پر 300 سے زائد وکلا کا سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا مطالبہ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) ملک بھر کے 300 سے زائد سے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت اور دباؤ کے الزامات پر مبنی خط کے حوالے سے سپریم کورٹ سے آئین کی شق 184 تین کے تحت از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور معروف وکیل سلمان اکرم راجا، ایمان زینب مزاری اور دیگر وکلا کی جانب سے مشترکہ مذمتی اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے مطالبے پر مبنی بیان جاری کیا گیا، جس میں وکلا برادری کے علاوہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے نام بھی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے غیرمتوقع طور پر لکھے گئے خط میں نمایاں کیے گئے انتہائی مشکل واقعات کی روشنی میں ہم وکلا برادری قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک رسائی کے حق میں غیرمتزلزل عزم کا اظہار مذکورہ بیان کے ذریعے کر رہے ہیں۔
وکلا نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل اور بلوچستان بارکونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی توثیق کرتے ہیں، جس میں عدلیہ کی آزادی کا اصول، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے ساتھ اظہار یک جہتی، ان کے جرات مندانہ اقدامات کو سراہنے اور ان اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط میں پیرگراف نمبر 6 میں بتائے گئے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور اس حوالے سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور ان الزامات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، بیان میں مذکور واقعات خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے مجرمامہ دباؤ، تشدد، ججوں کی غیرقانونی نگرانی اور ان کے اہل خانہ کی غیرقانونی نگرانی کی واضح طور نشان دہی کرتے ہیں جو انتظامیہ کو رپورٹ کرتے ہیں۔
ججوں پر دباؤ ڈالنے سے متعلق ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) شوکت عزیر صدیقی کی جانب سے اٹھائے گئے اسی طرح کے الزامات ہماری یادوں تازہ ہے، جس کے نتیجے میں انہیں غیرروایتی طریقے سے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا حالانکہ ان کے لگائے گئے الزامات ابھی ثابت ہونا تھے یا ان کی درخواست کے مطابق غیرجانب دار انکوائری کے تحت مسترد ہونا تھے۔
بیان میں سپریم کورٹ کے ماضی اور حال ہی میں دیے گئے فیصلوں میں عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ پر دباؤ سے متعلق کیے ذکر کے حوالے بھی شامل کیے گئے ہیں، جس میں ذوالفقار علی بھٹو اور جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے مقدمات کا حوالہ بھی شامل ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر ججوں پر منظم دباؤ اور مداخلت کا سامنا ہوتو انصاف کا پورا نظام شرم ناک ہوتا ہے اور اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وکلا عدالتوں میں اپنے موکلوں کے لیے انصاف تلاش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں ان کو غیرجانب دارنہ انداز میں سنا جائے گا اور انصاف فراہم کیا جائے گیا، اگر جج ہی انصاف کی فراہمی کے لیے خوف سے آزاد نہ ہوں تو وکلا سمیت پورا قانونی نظام اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے۔بیان میں پاکستان بارکونسل اور دیگر تمام بار ایسوسی ایشنز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی غرض سے ملک بھر میں ہنگامی بنیاد پر وکلا کنونشن طلب کیا جائے۔
سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس معاملے کو آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت اٹھائے کیونکہ یہ معاملہ مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق سے تعلق رکھتا ہے اور اس معاملے کو شفاف انداز میں عوام کے سامنے حل کیا جائے تاکہ عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد ہو جس کو بحال ہونے کی ضرورت ہے۔
وکلا نے کہا ہے کہ شفافیت اور معاملے کو سیاسی ہونے سے بچانے کے لیے ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معاملے پر سماعت کے لیے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے اور عوام کے لیے سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے۔
مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کی سماعتیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی نوعیت کی انکوائری محدود پیمانے کی نہیں، جہاں تک جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے عائد الزامات کا تعلق ہے تو اس طرح کی سماعت سے اگر ثابت ہوجائے تو انتظامی عہدیداروں کی کوئی خلاف ورزی کا تعین ہوتا ہے اور اسی طرح عوام میں عدلیہ کا اعتماد بحال ہوجاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اجلاس سے متعلق کہا گیا ہے کہ اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ فل کورٹ میں صرف چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات پر اتفاق رائے ہوئی تھی اور انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کسی انکوائری کمیشن کی تشکیل پر اس طرح کی اتفاق رائے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہم اس اقدام سے انتہائی غیرمطمئن اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں، جو خود عدلیہ کی آزادی کے اصول کے برخلاف ہے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی وزیراعظم شہباز شریف، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل سے ملاقات کے بعد وفاقی حکومت نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اسلام آبائی ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد قائم کمیشن کے لیے ٹی او آرز بھی جاری کردیے گئے ہیں، جس میں ذمہ داروں کے تعین اور تجاویز بھی شامل ہیں، انکوائری رپورٹ دو مہینوں کے اندر جمع کرائی جائے گی اور کمیشن جس سے چاہے تعاون طلب کرسکتا ہے۔