جھوٹے تبصرے کرکے ڈالر کمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟ چیف جسٹس


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی صحافیوں کو حراساں کرنے کے کیس میں میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی استدعا مسترد کردی اور تمام درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوے کہا کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتناہی سوشل میڈیا پر بِکے گا، سوشل میڈیا پر جھوٹے تبصرے کرکے ڈالرکمائے جاتے ہں ، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟ کیا زیادہ ری ٹوئٹس، لائیکس سے پیسے کمائے جارہے ہیں؟، کیا کسی صحافی پر جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے وہ اس کی ممبر شپ ختم کریں گے؟ میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت کی، س میں عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیا سے متعلق 11 قوانین کو چیلنج کرنے والی ایک اور درخواست کا بھی جائزہ لیا، جسے چکوال سے تعلق رکھنے والے بعض افراد بشمول انسپیکٹر جنرل آف پولیس اور جوائنٹ کیبنٹ سیکریٹری نے دائر کیا تھا۔
پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حیدر وحید کہاں ہیں، صلاح الدین نے بتایا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ مگر وہ عدالت بھی نہیں آئے،کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی، ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے، 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر کی تھی کیا ان کامقصد پورا ہو گیا، درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ یہ 6 درخواست گزارغائب ہو گئے، اسی لیے ہم نے کہا ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، انہوں نے دریافت کیا کہ حیدر وحید والی پٹیشن کے درخواست گزاروں میں سے کوئی عدالت میں موجود ہے، تاہم اس کے جواب میں کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا کر دریافت کیا کہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں، اٹارنی جنرل نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ بالکل یہ پروسیس کا غلط استعمال ہے، چیف جسٹس بولے؛ کیا ایسی درخواستں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں، اس پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں، اٹارنی جنرل نے درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کردی۔
بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی، اس ضمن میں انہوں نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست کا حوالہ دیا جسے واپس نہیں لینے دی گئی تھی، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کی ان لوگوں سے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ تو نہیں ہوگئی۔
بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ وہ ایک صحافتی باڈی کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے پاس ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں، چیف جسٹس بولے؛ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں یہ بھی ہو سکتا ہے کہا گیا ہو آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا۔
چیف جسٹس کی جانب سےکسی اور ارجنٹ معاملہ کی بابت دریافت کرنے پر بیرسٹر صلاح الدین نے مطیع اللہ جان کیس کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایک کیس کو ’اوپن اینڈ شٹ‘ کیس کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو ہے، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے،اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ روز ان کی اہلیہ کے حوالے سے غلط خبر دی گئی کہ وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں، کہا جائے گا چیف جسٹس کی وائف نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبر سے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں، کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں، اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا، کیا زیادہ ری ٹوئیٹس اور لائکس سے پیسے کمائے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کسی صحافی پر جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے تو اس کی ممبر شپ ختم کریں گے، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ وارننگ دے کر یا شوکاز نوٹس دے کر ممبر شپ ختم کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ اس سے کیا ہو جائے گا، آپ آفیسر آف کورٹ ہیں حل بتائیں۔
بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ہتک عزت کا قانون پاکستان میں اتنا مضبوط نہیں جس کے باعث سب ہوتا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وکلاء یا صحافیوں نے کبھی اپنے ممبر کے خلاف کارروائی کی، یہ سب ٹریڈ یونین بن گئی ہیں، ہم نے تو آپ کو اپنے ادارے میں کر کے دکھایا آپ بھی کر کے دکھائیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی درخواست آئی، پٹیشن کے درخواست گزار عدالت آئے، نہ وکیل نہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ۔
درخواست میں کہا گیا کہ اب وفاقی حکومت میڈیا ریگولیشن کا معاملہ خود دیکھ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے حکومت سے منسوب اس بات کی تردید کی۔
سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کرلیے اور درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کرکے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سابقہ بینچ کی دوبارہ دستیابی پر کیس دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔