بلوچستان کی نو منتخب حکومت کو کون کون سے چیلنجز درپیش ہیں؟
کوئٹہ (قدرت روزنامہ)عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ملک بھر میں الیکشن میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں نے حکومت سازی کا عمل مکمل کرلیا ہے۔ بات ہو اگر رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی تو صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر 2 مارچ کو میرسرفراز بگٹی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر اگلے پانچ سالہ آئینی دور کا آغاز کردیا۔
ایوان میں نئے چہروں کے آنے کے بعد عوام کی زبان اور ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ کیا نئی حکومت بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوسکے گی یا نہیں؟
36 اضلاع پر مشتمل بلوچستان مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ صوبے میں آئے روز بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ لاپتا افراد کا مسئلہ، تعلیمی زبوں حالی، صحت کے شعبے کی خرابی، بدعنوانی، انفراسٹرکچر، مواصلاتی نظام، قلت آب، موسمیاتی تبدیلی، بے روزگاری سمیت عوامی نوعیت کے دیگر مسائل صوبے میں ایک طویل عرصے سے موجود ہیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
نو منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں مل کر حل کریں گے۔ کرپشن بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلوں کا جو چیلنج درپیش ہے اس سے نمٹنے کے لیے وفاق کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے منصوبے پر جلد کام شروع ہوگا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کردیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت سیلاب متاثرین کے گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ مافیا نے بلوچستان کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبہ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے جعلی بلز بنانے کی شکایات موصول ہورہی ہیں جلد اس پر قابو پائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ صوبے کے نوجوانوں کو ہنر مند بناکر بیرون ملک روزگار کے لیے بھجوائیں گے۔ ایک ہزار نوجوانوں کو ایک سال کے دروان بیرون ممالک بھجوایا جائےگا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کو مسائلستان کہا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوں گی۔ کالعدم تنظیموں کی جانب سے آئے روز سرکاری املاک اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے صوبے میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا نہیں ہو رہے جبکہ سی پیک جیسا منصوبہ بھی بد امنی کے باعث ٹھپ پڑا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ علاقے میں معاشی استحکام آسکے، ایسے میں بے روزگاری کی شرح میں بھی کمی واقع ہوگی اور یوں بلوچستان میں خوشحالی کی ابتدا ہو سکے گی۔
ماہرین کے مطابق صوبے میں تعلیمی نظام کا کوئی پرسان حال نہیں صوبے کے دور افتادہ علاقوں میں گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار ہے جبکہ کئی اسکول صرف سرکاری کاغذوں پر ہی موجود ہیں۔ ابتر تعلیمی صورت کی وجہ سے نوجوانوں میں احساس محرومی جنم لیتا جا رہا ہے ایسی صورتحال میں نوجوان جرائم کی جانب راغب ہوتے ہیں جو معاشرتی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے 2 ہزار سے زیادہ گوسٹ اساتذہ کو برطرف تو کیا گیا لیکن یہ عمل تعلیمی زبوں حالی کو ختم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر حکومت کو خطیر رقم خرچ کرنا ہوگی تاکہ صوبے کا آئندہ مستقبل روشن ہوسکے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کو نہ صرف عوامی نوعیت کے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان منصوبوں کو جلد پایہ تکمیل تک بھی پہنچانا ہوگا تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔