عدالتی معاملات میں مداخلت کے کیس میں نواز شریف کا فریق بننے پر غور، وکیل کون ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں یہ بحث اکثر ہوتی رہی ہے کہ عدالتوں کے متنازع سیاسی فیصلے کس حد تک قانونی اور کس حد تک بیرونی یا اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت سنائے جاتے ہیں تاہم گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے تحریر کردہ ایک خط کے بعد اس بحث نے ایک نیا جنم لیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے اپنے خط میں عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی طرف سے براہِ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنہیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججوں کے خط پر ازخود نوٹس لیا ہے جس کی ایک سماعت بھی ہوچکی ہے، جبکہ چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔
کچھ روز قبل سینیئر صحافی سلمان غنی کی ملاقات مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے ہوئی، ملاقات ایک افطاری کی میز پر ہوئی تھی۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلمان غنی نے کہاکہ نواز شریف کا یہ ماننا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے ان کے خلاف بھی سازش کی گئی تھی، ’سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی یہ سب کچھ عوام اور عدلیہ کو بتا چکے ہیں کہ کون لوگ ان سے میرے خلاف فیصلہ لینا چاہتے تھے، جو یہ کہتے تھے کہ ان کی 2 سال کی محنت ضائع ہو جائے گئی‘۔
سلمان غنی کے مطابق نواز شریف کا ماننا ہے کہ اب یہ تمام معاملہ کھلنا چاہیے کہ ادارے کس طرح فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اگر ادارے سازشوں میں شریک ہوں گے تو معاملات درست سمت کی طرف نہیں جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف 6 ججوں کے خط کے معاملے پر کیس میں فریق بننے کا سوچ رہے ہیں۔
سلمان غنی نے بتایا کہ میری اطلاع کے مطابق نواز شریف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہی اپنا وکیل کرنا چاہتے ہیں اور اس پر مشاورت کی جارہی ہے۔ پارٹی کے لوگوں سے اس بارے میں رائے مانگی گئی ہے، جب فل کورٹ بنے گا تب نواز شریف عدلیہ میں اداروں کی مداخلت کے حوالے سے علیحدہ پٹیشن دائر کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف کا یہ بھی ماننا ہے کہ 2017 میں جو کچھ ہوا وہ بھی ایک پلان کا حصہ تھا، نواز شریف چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ختم ہونا چاہیے، حکومتیں آنی جانی چیز ہے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے جسٹس شوکت عزیر صدیقی سے رابط کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ 6 ججز کے معاملے پر نواز شریف کے وکیل بننے جارہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک مسلم لیگ ن کی طرف سے اس حوالے سے کوئی رابط نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے مطابق نواز شریف نے سیاسی میدان میں متحرک ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں میں جاکر جلسے بھی کریں گے۔ اس سلسلے میں نواز شریف نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت بھی خود سنبھالیں گے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلمان غنی نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف دوبارہ پارٹی صدر بننے جارہے ہیں اس سلسلے میں جلد ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنایا جائے گا۔
’یہ پہلا موقع نہیں ہوگا جب نواز شریف پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اس منصب پر دوبارہ منتخب ہوں گے بلکہ پرویز مشرف دور میں بھی انہیں اس منصب سے علیحدہ ہونا پڑا تھا اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم سنہ 2010 میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے تھے‘۔
سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف اگرچہ پارٹی صدر ہیں لیکن وہ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں پہلے ہی کم دلچسپی لیتے ہیں اور اب تو وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پارٹی کے لیے کوئی وقت بھی نہیں ہے۔ اس لیے نواز شریف نے پارٹی صدر بننے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ن لیگ کی سیاست کے لیے بہتر ہوگا۔