سائفر کیس: اعظم خان ملزم تھا، پھر گواہ بن گیا، اس کے بیان کی کیا وقعت ہو گی، جسٹس عامر فاروق کا اہم سوال


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سائیفر کیس میں وکلا کے دلائل پر 2 رکنی بینچ ایک نقطے پر آکر رک گیا ہے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ 2 قسم کے چارج ہیں فائیو سی اور ڈی ۔
جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فائیو سی کہتا ہے کہ دستاویزات غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھی گئیں جبکہ ایک چارج ہے کہ مناسب حفاظت نہیں کی گئی، پہلے تو یہ ان 2 چارجز پر معاونت کریں۔ جب کو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سائیفر کیس میں چارج کو دیکھا جائے تو پھر اعظم خان کو کیوں ملزم نہیں بنایا گیا؟
جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ایک طرف محتاط رہتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اعظم خان پراسیکیوشن کا سٹار وٹنس تھا، اپ کہتے ہیں کہ اعظم خان کی گواہی میں ایسا کچھ موجود ہی نہیں تھا اور ان کا بیان ناقابل یقین ہے، آپ کس بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس عامر فاروق کا سائیفر کیس میں اہم سوال
جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ اعظم خان لاپتا تھے ، ایف آئی آر درج ہوئی، واپس آئے لیکن انہوں نے واپس آکر کیا بیان دیا ہمیں یہ معلوم نہیں۔ یہ ایک حقیقیت ہے کہ ایک شخص پہلے ملزم تھا پھر غائب ہوگیا اور پھر گواہ بن گیا تو اس کے بعد ان کے دیے گئے بیان کی کیا وقعت ہوگی؟اس سے قبل ‏عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دلائل کے اختتامی مرحلے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ‏سائیفر کی گمشدگی کا معاملہ عمران خان پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی یہ ذمہ داری تھی اور وہی کئیر ٹیکر ہیں۔ گواہان کے بیانات میں بھی یہ واضح ہے کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے سائیفر کی کاپی وصول کی۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ‏ہمارے ذہن میں ایک ابہام ہے، کاپی سیکرٹری وصول کرتا ہے لیکن وہ واپس نہیں جاتا، تو اس معاملے پر آپ کا کیا مؤقف ہے، کیا سیکرٹری نے سائیفر کی کاپی آپ کو دی ہی نہیں یا دی اور پھر گم گئی؟ ‏اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارا مؤقف یہی ہے کہ ہم نے وصول کیا اور یہ دفتر سے کہیں ادھر اُدھر ہو گئی۔ پرنسپل سیکرٹری نے اپنے بیان میں کہا کہ جب کاپی گم گئی تو ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کو ہدایات کی کہ اس کو ڈھونڈا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا کام تھا کہ وہ پرنسپل سیکرٹری کو اس متعلق آگاہ کرتے اور انہوں نے یہ کیا اور پرنسپل سیکرٹری نے 3 افسران کو کہا کہ کاپی کو ڈھونڈا جائے اور جب انہوں نے اپنی رپورٹ دی تو پھر دفتر خارجہ کو بھی آگاہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ‏سائیفر کی کاپی جس نے وصول کی اس کو ملزم سے گواہ بنادیا گیا اور جس کا اس کی وصولی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اس کو سزا دے دی گئی۔یہی تو میرا کیس ہے جب انہوں نے ملزم کو گواہ بنا لیا تو اپنا کیس ہی خراب کردیا۔
اس پرجسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر سائیفر کی دستاویزات گم جائے تو اس کے لیے دفتر خارجہ کا میکنزم موجود ہے کہ وہ آئی بی وغیرہ سے انکوائری کروائیں لیکن اگر دستاویزات گم بھی جائے تو یہ ایک مجرمانہ غفلت نہیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں سائفر کاپی اس وقت کے وزیراعظم کے حوالے کی گئی بلکہ کاپی اعظم خان کے حوالے کی گئی تھی۔