پانی کی شدید قلت، اب اسلام آباد والوں کو پانی کہاں سے ملے گا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پانی کی قلت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی اور لاہور کے بعد اب اسلام آباد میں بھی ٹینکرز کے ذریعے پنی کی فراہمی کی جارہی ہےاور بعض علاقوں میں تو تقریباً ہر دوسری گلی میں بورنگ مشین لگی ہوئی نظر آتی ہے۔
ابھی گرمی کا ٹھیک سے آغاز بھی نہیں ہوا کہ عوام پانی کی دستیابی کے حوالے سے فکر مند نظر آرہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، جس تیزی سے پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہورہا ہے، اس سے مستقبل میں یہی نظر آ رہا ہے کہ یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرلے گا، جس کے باعث پاکستانی عوام کی عام استعمال کے علاوہ پینے کے صاف پانی تک رسائی محدود ہو جائے گی۔
صرف یہی نہیں واٹر بور کروانے کی جو روایت اسلام آباد میں بڑھ رہی ہے، اس سے زیر زمین پانی کی سطح بہت تیزی سے متاثر ہورہی ہے، جو آنے والے وقت کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔
پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 62 سے 82 فیصد تک پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں صرف 15 فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف 18 فیصد تک صاف پانی میسر ہے۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پینے کے پانی کے 24 نمونے لیے گئے جن میں سے 17 محفوظ تھے جبکہ 7 غیرمحفوظ تھے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واٹر مینیجمنٹ سردار خان زمری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برسوں کا موازنہ کیا جائے تو زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
زیرزمین پانی کی سطح کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس وقت اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو اس وقت زیرزمین پانی کی سطح 50 سے 60 فٹ کے درمیان تھی جو اب کم ہوکر 400 فٹ تک جا پہنچی ہے۔
اسلام آباد میں بورنگ سسٹم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ واٹر بورنگ پر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، ظاہر ہے بارشوں کے علاوہ تو پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، ابھی بارشیں ہو رہی ہیں، ان کی وجہ سے اسلام آباد میں پانی کی کمی پوری ہو جائے گی۔
سردار خان زمری نے کہا کہ اس کے علاوہ تربیلا ڈیم کا ایک پروجیکٹ شروع ہونے جا رہا ہے، جب تربیلا سے پانی آ جائے گا تو گھروں میں پانی کی سپلائی خودبخود بڑھ جائے گی اور بورنگ پر لوگوں کا انحصار کم ہو جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے ان بڑے پروجیکٹس کی تکمیل میں تقریباً 7 سال کا عرصہ لگے گا اور اس دوران پانی کی زیرزمین سطح مزید متاثر ہو گی۔
اسلام آباد کے نئے سیکٹرز میں پانی کی قلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں آئی 14، آئی 15 اور آئی 16 سمیت جتنے بھی نئے سیکٹرز بن رہے ہیں وہاں وہاں ہمارے ٹیوب ویل فیل ہوگئے ہیں کیونکہ ان سیکٹرز میں زیرزمین پانی موجود ہی نہیں۔
رواں برس گرمیوں میں پانی کی دستیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پینے کے صاف پانی کی ضرورت تقریباً 120 ملین گیلن یومیہ ہے، جبکہ سی ڈی اے کے پاس 80 ملین گیلن یومیہ پانی کا ذخیرہ موجود ہے اور باقی شارٹ فال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے گزشتہ کچھ عرصہ میں سسٹم کو بہتر کرکے لیکیج کے ذریعے ہونے والے پانی کے ضیاع کو روکا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً 10 ملین گیلن یومیہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اس بار کسی کو بھی پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ خانپور ڈیم میں پانی کی سطح کم تھی لیکن امید کی جارہی ہے کہ ان بارشوں سے پانی کی کمی پوری ہوجائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سملی ڈیم اور خانپور ڈیم میں پانی کم ہو گیا تھا مگر اس کے بعد بارشیں ہوئیں تو پانی کا لیول بہتر ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خانپور ڈیم میں پانی کی سطح 22 فیصد پر پہنچ گئی تھی، جو اب بڑھ کر 40 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔اس لیے ابھی خانپور ڈیم سے صرف 2 ملین گیلن یومیہ پانی لیا جارہا ہے تا کہ سخت گرمی کے دوران پانی دستیاب ہو اور استعمال کیا جاسکے۔
ماہر ماحولیات عثمان علی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے باقی بڑے شہروں کی طرح اسلام آباد کے شہریوں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ ہر سال پانی کی سطح 1.2 میٹر کم ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایک شہری کو استعمال کے لیے کم سے کم ایک ہزار کیوبک میٹر سالانہ پانی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1951 میں ایک پاکستانی کے لیے 5 ہزار 260 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا لیکن اس وقت ہم ڈیڈ لائن پر چل رہے ہیں کیونکہ پانی کی سالانہ فی کس دستیابی اب 5 ہزار سے کم ہوتی ہوئی ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے جو 2025ء میں مزید کم ہو کر 860 کیوبک میٹر پر چلی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک انسان کو سالانہ استعمال کے لیے کم از کم جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے یہ اس سے بھی 140 کیوبک میٹر کم ہو جائے گی، اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی صورت حال کیا ہے۔‘