بابراعظم کی دوبارہ کپتانی؛ حفیظ کو ٹیم میں گروپنگ کا خدشہ ستانے لگا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بابراعظم کے دوبارہ کپتان بننے پر سابق ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کو ٹیم میں گروپنگ کا خدشہ ستانے لگا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں محمد حفیظ نے کہا کہ نیوزی لینڈ سے سیریز کیلیے شاہین شاہ آفریدی کو ٹی20 کپتان بنانے کی بہت سی وجوہات تھیں، میڈیا اور بورڈ میں بھی ذکر ہورہا تھا کہ بابراعظم ساڑھے 3 سال میں شاید ٹیم بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے،کھلاڑی تیار نہیں ہوئے، بینچ اسٹرینتھ نہیں بن سکی۔
زیادہ تر ایک جیسے کرکٹرز کھیلتے رہے جس کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہوگئے،ایک اور وجہ یہ تھی کہ بڑے ٹورنامنٹس میں اچھی پرفارمنسز سامنے نہیں آئیں،اوسط درجے کی کارکردگی دیکھنے میں آئی، ساڑھے 3سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے جس میں ہوم اور اوے سیریز کی درست پلاننگ سے نتائج حاصل کرسکتے ہیں،پاکستان کی دوطرفہ سیریز بھی اچھی نہیں جارہی تھیں،ایک مینجمنٹ کمپنی کے حوالے سے بھی خبریں آئیں،انھوں نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی نے 2ماہ میں ایسا کیا کردیا کہ ہٹا دیا گیا، یا بابر اعظم نے ایسا کیا کردیا جس کی بنیاد پربطور کپتان واپس لے آئے، یہ ایک مقبول فیصلہ تو ہوسکتا ہے مگر اس کا فائدہ نہیں نقصان ہوتا نظر آرہا ہے،اس سے ٹیم میں کچھ گروپس بنا دیے گئے۔
بورڈ نے خود تنازع کے بیج بو دیے جو کہ بدقسمتی ہے ،محمد حفیظ نے کہا کہ بابر اعظم نے اگر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے ہیں اور اب بہتر فیصلے کریں گے تو اچھا کرسکتے ہیں،البتہ اگر ہم نیوزی لینڈ کیخلاف ٹی20سیریز کیلیے اسکواڈ کی سلیکشن دیکھیں تو گذشتہ پالیسیز کا تسلسل ہی نظر آتا ہے،کیویز کو 13اہم کرکٹرز میسر نہیں ہیں، مینجمنٹ نے گھر بیٹھے کھلاڑیوں کو بھی بلاکر کہا کہ آئیں پاکستان کیلیے کھیلیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک کمزور فیصلہ ہے جوٹیم کو ایک بار پھر اسی زون میں لے جائے گا جہاں پہلے تھے، بینچ اسٹرینتھ کب تیار ہوگی؟نئے کرکٹرز کو کب مواقع ملیں گے کہ وہ مستقبل کیلیے تیار ہوسکیں؟ میرے خیال میں تو یہ بہتر پلاننگ نہیں ہے۔
محمد حفیظ نے کہا کہ محمد رضوان اور بابر اعظم پاکستان کے شاندار پلیئرز ہیں لیکن یہ دونوں پوری ٹیم نہیں ہیں، دیگر پلیئرز کے ٹیلنٹ کا بھی فائدہ اٹھانا اور مناسب جگہ دینا ہے تاکہ اپنا کردار ادا کرسکیں،کیا صائم ایوب کو نمبر4، 5پر یا بطور اوپنر کھیلنا چاہیے؟ اگر اننگز کو آگے بڑھانے والے بابر اور رضوان بطور اوپنر کھیلیں تو صائم کو میں کہاں لے کر جاؤں گا،ٹیم کا مفاد سب سے پہلے ہے،صرف 2کھلاڑیوں کی بدولت فتوحات حاصل نہیں کی جاسکتیں۔
دوسروں کا بھی ٹیلنٹ کھل کر سامنے آنا چاہیے،میرا پلان پاکستان کیلیے تھا،کپتان شاہین شاہ آفریدی اس حوالے سے بابر اعظم اور محمد رضوان سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، میں نے یہ ذمہ داری خود اٹھائی،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اوپننگ جوڑی برقرار رکھتے ہوئے صائم ایوب کو کسی اور پوزیشن پر سیٹ کرسکتا ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں،تمام پلیئرز کو برابر کے مواقع ملنا اور نتائج حاصل ہونا چاہئیں۔
عامراور عمادوسیم کی واپسی کا طریقہ کار غلط ہے
سوشل میڈیا پر ’’ریسٹ ان پیس پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ‘‘ لکھنے کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ میں سوئی ناردرن گیس کے ساتھ وابستہ ہوں،ڈومیسٹک کرکٹ چلانا بہت مشکل ہوچکا ہے،کھلاڑی صرف لیگ کرکٹ کیلیے تیار ہورہے ہیں،اس میں کرکٹرز پر کام کے بوجھ یا انجریز کے مسائل سامنے نہیں آئیں گے،حارث رؤف پی ایس ایل میں کھیل کے دوران انجرڈ ہوئے،اس کے سوا بتائیں کہ کسی کی انجریز سامنے آئی ہوں،البتہ ڈومیسٹک کرکٹ یا پاکستان ٹیم کا کوئی مشکل ٹور ہو تو انجریز سامنے آجاتی ہیں، محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ غلط ہے۔
محمد عامر 4 سال سے ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیل رہے، ریٹائرمنٹ بھی لی ہوئی تھی،ان کو واپس لے آئے، میں نے بھی انھیں کال کی تھی کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلیں پرفارم کریں، سلیکٹرز ان کو منتخب کریں تو انٹرنیشنل کرکٹ میں پورا موقع ملے گا،عماد ٹی وی پر تبصرے کر رہے تھے مگر ان کو بھی منتخب کرلیا گیا،میں نے جب عماد سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ صحیح مواقع نہیں مل رہے تھے، پاکستان کیلیے نہیں کھیلنا، لیگز کھیلنا چاہتا ہو، میں نے ان سے کہا تھا کہ جو بھی پہلے ہوچکا اسے بھول جائیں آگے ہم آپ کی دیکھ بھال کریں گے مگر وہ نہ مانے،اب بغیر پاکستان کرکٹ کے سسٹم میں پرفارم کیے بغیر ان کو واپس لانا درست نہیں،میں عثمان خان کے ٹیلنٹ کی قدر کرتا ہوں مگر وہ پاکستان کے کرکٹ سسٹم کا حصہ نہیں ہیں۔
اگر سلیکشن کا معیار ڈومیسٹک کرکٹ نہیں تو اس میں شرکت کرنے والے ہزاروں کرکٹرز کو آپ کیا ترغیب دلائیں گے کہ وہ کھیل جاری رکھیں،بورڈنے تو ڈومیسٹک کرکٹ کو دفن کردیا،سب کو اندازہ ہوگیا کہ سلیکشن کا یہ راستہ نہیں ہے،پی ایس ایل میں 2چھکے لگاؤ، فرنچائز کی ایک ٹویٹ آئے، اونر کا بیان آئے تو سب دروازے کھل جائیں گے،کیا پی ایس ایل ہی پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ ہے؟ابھی ون ڈے ٹورنامنٹ میں کون پرفارم کرے گا کیونکہ سب کو معلوم ہوگا کہ حاصل تو کچھ ہوگا نہیں۔
کوچ کی طرح کیوں نہ چیئرمین بورڈ بھی غیرملکی لے آئیں
غیر ملکی کوچز کا تجربہ کامیاب رہنے کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ ہم یہ نہ کریں کہ ایک بار غیرملکی چیئرمین پی سی بی لے آئیں،نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ بلکہ ملک میں بہت سارے ایسے اعلیٰ عہدے ہیں جہاں ہمیں غیر ملکیوں کی تقرری کے بارے میں سوچنا چاہیے،جو بھی کوچ ہو وہ رہنمائی کرتا ہے،اس کے ٹیلنٹ کی قدر کرنا چاہیے۔
آپ سوچ سمجھ کر کسی کو لے آئیں،پاکستان کرکٹ کی ایک طویل تاریخ ہے،ملک نے کئی لیجنڈ کرکٹرز پیدا کیے،اب بھی شاندار کرکٹرز موجود اور پاکستان کرکٹ کی خدمت کیلیے تیار ہیں،اگر ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہوئے کوئی سمجھتا ہے کہ غیر ملکی کوچ کرکٹ کی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا یا زیادہ ایماندار ہے تو اس بات پر دکھ بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے کرکٹرز کی عزت کا پاس نہیں رکھ رہے۔
ان پر اعتماد نہیں کرتے،کوئی غیر ملکی کوچ اگر درست پلانز پر عمل درآمد کروانے کی صلاحیت رکھتا اور نتائج دے سکتا ہے تو کیوں نہیں لائیں مگر پاکستان کی اپنی تاریخ بھی بڑی روشن ہے،اگر پاکستانی کرکٹرز میں سے کوئی اس قابل ہے تو اس کو یہ کردار ملنا چاہیے۔
4سالہ معاہدہ 2ماہ میں ختم، فیصلہ سیاسی تھا
بطور ٹیم ڈائریکٹر اور ہیڈ کوچ سفر انتہائی مختصر رہنے کے سوال پرمحمد حفیظ نے کہا کہ میرا تقرر 4سال کیلیے ہوا تھا، بورڈ حکام چاہتے تھے کہ میں اگلے ورلڈکپ تک ڈائریکٹر کے طور پر ٹیم کو لے کر چلوں، میں نے لیول ون کوچنگ کورس ہی کیا ہے اس لیے کوچنگ پر سوال اٹھائے گئے،اس حوالے سے لوگوں کی عجیب سوچ ہے کہ میری 20سال کی کرکٹ اہم نہیں،اگر 5روز کا کورس کر جاؤں تو کوچنگ کا اہل بن سکتا ہوں،میرے کرکٹ میں تجربے اور علم کی قدر نہیں کی گئی،ہیڈ کوچ تو میں نہیں تھا مگر نتھی کیا گیا،میرا کام تو بطور ڈائریکٹر ٹیم کیلیے حکمت عملی بنانا اور کوچز کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرانا تھا،مختصر وقت کیلیے تو میں آنا ہی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس دوران کچھ بدل نہیں سکتا تھا.
انھوں نے کہا کہ مجھے پاکستان ٹیم کے نتائج کی وجوہات کا اندازہ بھی تھا،اس کو ٹھیک کرنے کیلیے کوئی جادو کی چھڑی میرے پاس نہیں تھی، البتہ اچھی پلاننگ پر اعتماد کرتے ہوئے ہی بورڈ نے مجھے 4سال کیلیے ذمہ داری سونپی تھی،مگر نئی مینجمنٹ نے اس سارے معاملے کو سیاسی انداز میں ڈیل کرتے ہوئے معاہدہ 2ماہ میں ہی ختم کردیا،یہ پاکستان کرکٹ کیلیے بھی اچھا نہیں ہوا، کھیل کے فیصلے سیاسی انداز میں ہونے سے مثبت نتائج سامنے نہیں آسکیں گے،جو ہوا بدقسمتی ہے اس میں میرا نہیں پاکستان کرکٹ کا نقصان ہوا،محمد حفیظ نے کہا کہ پہلے مکی آرتھر کو آن لائن کوچ بنا دیا گیا،اس فیصلے کو بورڈ کے اپنے لوگ درست نہیں سمجھتے تھے.
میڈیا اور شائقین نے بھی اسے پسند نہیں کیا، پھر کرکٹ میں سمجھ بوجھ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے لایا گیا تو 2ماہ بعد ہی فارغ کردیا،سب سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی فیصلہ تھا،بہرحال پاکستان کرکٹ کیلیے میری نیک خواہشات ہیں، اب جو بھی فیصلے کیے گئے ان افراد کو طویل مدت کیلیے کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ درست انداز میں اپنی منصوبوں پر عمل درآمد کرواسکیں۔ابھی تک پی سی بی سے واجبات نہ ملنے کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ پیسہ میری ترجیحات میں شامل نہیں،ترجیح تو پاکستان کرکٹ کی بہتری تھی، ایک چھوٹی سی رقم رہتی ہے جو بورڈ سے مل جائے گی، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کافی پینے کی وجہ سے فلائٹ مس ہونے کی بات بالکل غلط تھی
کافی پینے کی وجہ سے فلائٹ مس ہونے کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ یہ بات غلط تھی، ٹیم بس میں آنے والا میں پہلا فرد تھا، میلبورن سے فلائٹ کیلیے سب سے پہلے بورڈنگ کارڈ میں نے لیا،جب ہم گیٹ کی جانب جارہے تھے تو شان مسعود اور ان کی اہلیہ کے بعد میں تھا،ایئرلائن حکام نے ان دونوں کو جانے دیا مگر مجھے روک لیا کہ قانون کے تحت 10منٹ پہلے رپورٹ نہیں کیا تو ہم جہاز میں سوار نہیں کرا سکتے،البتہ آپ آدھے گھنٹے بعد اگلی پرواز میں جاسکتے ہیں، سڈنی میں میری فلائٹ پہلے پہنچی کیونکہ دوسری کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی تھی۔
کرکٹرز پر کوئی سختی نہیں کی،ڈریسنگ روم میں سونے سے روکا
محمد حفیظ نے کہا کہ بطور ٹیم ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے میں نے کرکٹرز پر کوئی سختی نہیں کی،پاکستان ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے کچھ ڈسپلن ہوتے ہیں جس کی پاسداری کرنا پڑتی ہے،غلط چیزیں میرے ساتھ منسلک کی گئیں ،ان کا اب لوگوں کو پتا بھی چل گیا ہے۔
اس وقت مجھے ٹارگٹ کیا گیا،جہاں میرا کردار نہیں تھا وہ چیزیں بھی میرے ساتھ جوڑ دی گئی،اسی میں سختی کا معاملہ بھی شامل کیا گیا، اگر کوئی کرکٹر ڈریسنگ روم میں سویا ہوتو کرکٹ کیسے کھیلے گا؟اگر میں نے کہا کہ میچ کے دوران کوئی پلیئر ڈریسنگ روم میں نہیں سوئے گا تو کیا غلط کہہ دیا،ہم درست سمت میں جانے والی چیزوں کو بھی منفی انداز میں لیتے ہیں،دورئہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسی طرح کی کئی باتیں میرے ساتھ منسلک کی گئیں، پاکستان ٹیم اپنی تاریخ میں کب آسٹریلیا سے جیت کر آئی ہے،میں نے پوری کوشش کی۔
1،2 بار فتح کے قریب بھی آئے مگر مواقع گنوادیے،ایسا کرکٹ میں ہوجاتا ہے،اگر پلاننگ میں کوئی کمی تھی تو میں ذمہ دار ہوں،بطور ڈائریکٹر اب بھی دونوں ٹورز کی ذمہ داری لیتا ہوں، میں نے بکھری ٹیم کو یکجا کیا، البتہ 2ماہ میں تو کوئی نتائج نہیں دے سکتا تھا،میری پلاننگ 4سال کی تھی۔
پاکستان کرکٹ کی سمت کا تعین سیاسی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے
مستقبل میں کوچنگ کورسز کرنے کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا،اگرچہ کورس میں زیادہ تھیوری اور تھوڑا پریکٹیکل ہوتا ہے مگر اسے کرنے میں کوئی حرج نہیں ،البتہ اگر یہی معیار ہے تو جس نے سب سے زیادہ کورس کیے یا نمبر لیے اسے پاکستان ٹیم کا کوچ ہونا چاہیے، ہمارے پاس لیول فور کوچ موجود ہیں تو غیر ملکیوں کی جانب کیوں جارہے ہیں؟ ہم غیر متعلقہ چیزوں کو لے کر سارے فیصلے کررہے ہیں،اہم یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کرکٹ کو کس سمت میں لے کر جانا ہے،سیاسی تقرریاں پانے والے چیزوں کو اپنے انداز میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں جو غلط ہے،پاکستان کرکٹ کی سمت کا تعین سیاسی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے۔