سائفر کسی سطح پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا، ایف آئی اے کا اقرار، سماعت کل تک ملتوی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کے دوران عدالت کے اسفتسار پر ایف آئی اے کے وکلا نے انکشاف کیا کہ سائفر کسی سطح پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سائفر کیس سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور دیگر وکلا جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد شاہ اور ذوالفقار عباس نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔
’یہ بڑا متبرک ڈاکیومنٹ ہے‘
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ سائفر کی تعریف کردیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے، کیا یہی سائفر خفیہ دستاویز تھی یا ہر سائفر ڈاکیومنٹ خفیہ ہوتا ہے؟
ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد شاہ نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق ہر کوڈڈ دستاویز سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہوتا ہے، سائفر ٹیلی گرام سائفر سیکشن کو موصول ہوا، سائفر ای میل کے ذریعے 7 مارچ کو واشنگٹن سے آیا جس پر سائفر سیکشن میں نمبر لگایا گیا۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر گائیڈلائنز سے متعلقہ بُک عدالت کے سامنے پیش کردی۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے۔ انہوں نے پھر اسپیشل پراسیکیوٹر سے پوچھا یہ کلاسیفائیڈ تو نہیں، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اس کتاب پر نمبر لگا ہوا ہے اور یہ آفیشل استعمال کے لیے ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ یہ کتاب ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر جاری ہوئی ہے تاکہ عدالت کے فیصلہ لکھنے تک یہاں موجود رہے، یہ کتاب جس شخص کے نام پر جاری ہوتی ہے اس نے ہر 6 ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ یہ اس کے پاس ہی ہے، یہ بڑا متبرک ڈاکیومنٹ ہے، اس کی کاپی سلمان صاحب کے پاس تھی، انہوں نے دلائل بھی دئیے۔
’سائفر کی پرنسپل کاپی کہاں ہے؟‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر سے دریافت کیا کہ کیا سائفر کی پرنسپل کاپی آج بھی وزرات خارجہ میں موجود ہے، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کی سافٹ پرنسپل کاپی آج بھی وزارت خارجہ میں موجود ہو گی، ای میل کے ذریعے آنے والی سافٹ پرنسپل کاپی اپنے پاس محفوظ رکھنے کے بعد ضائع کردی جاتی ہے، اس کی کاپی نہیں کی جاسکتی، اگر کاپی کرنی ہو تو اس کی اجازت لی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے کہا کہ ہمیں خصوصی طور پر علم نہیں کہ سائفر کیا ہوتا ہے، آپ نے بتانا ہے۔ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سائفر کا متن بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کوڈ توڑے جا سکتے ہیں، سائفر کی 3 اقسام ہوتی ہیں، کوڈڈ، انکلیئر اور لٹرل۔
پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ لٹرل کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر جو کہا گیا وہ بتایا گیا ہے، صرف سائفر نہیں بلکہ اس کا متن بھی محفوظ رکھا جانا ہوتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا سائفر کو کسی نے انٹرسیپٹ کیا، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ کوڈڈ سائفر کسی سطح پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سائفر ای میل کے ذریعے آیا تو ساتھ اٹیچ منٹ ہو گی، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہر ملک کے فارن آفس کا اپنا اپنا کوڈ ہے، دفتر خارجہ کے سسٹم میں سائفر کی سافٹ پرنسپل کاپی موجود ہوتی ہے، سائفر کی پرنسپل کاپی کی سیکیورٹی اسی طرح جاری رکھی جاتی ہے۔
’سائفر کے کونٹینٹ کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ کسی ڈپلومیٹک مشن کی طرف سے آنے والی دستاویز سائفر تصور ہو گا، کتابچے سے تو پتہ چل رہا ہے کہ کتنا ہی حساس دستاویز ہو جب تک کوڈڈ دستاویز اور متن ساتھ نہ ہوں پتہ نہیں چل سکتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ کتابچہ ٹرائل عدالت کے سامنے پیش کی گئی تھی، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ دلائل دیے گئے تھے لیکن کاپی عدالت میں پیش نہیں کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل کے زمانے میں یہ سارا کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے یہ تو بہت اہم کتابچہ ہے، یہ صرف سائفر نہیں بلکہ تمام کانفیڈنشل ڈاکیومنٹس کے لیے ہے، پھر تو اس عدالت میں بہت سے خفیہ ڈاکیومنٹس آتے ہیں، جیسے ایف بی آر میں کسی کا ڈیٹا کانفیڈنشل ہوتا ہے لیکن وہ اس زمرے میں نہیں آتا، آپ ہمیں صرف یہ بتائیں کہ سائفر کس طرح قابل احتساب دستاویز ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا کابینہ ڈویژن کی طرف سے یہ ہدایات ہیں یا قانون ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ یہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے سائفر آفیسر گواہ عمران ساجد کا بیان پڑھنے کی اجازت طلب کی تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اس کے کونٹینٹ کے بارے میں کسی گواہ نے کچھ کہا، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس کے حوالے سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔
’کیا اعظم خان نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو قوانین بتائے‘
عدالت نے سوال کیا کہ یہ ایک انتہائی اہم دستاویز تھی، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے پاس یہ ڈاکیومنٹ نہیں تھا لیکن کیا اعظم خان نے اس دستاویز کو خفیہ رکھنے اور واپس کرنے سے متعلق عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بتایا کیونکہ وزیر خارجہ کو قانون رٹا ہوا تو نہیں ہوتا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکیومنٹ کے اوپر مہر لگی ہوتی ہے کہ یہ خفیہ ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کہہ رہے ہیں، ہمارے سامنے تو وہ دستاویز موجود ہی نہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو اس بات سے آگاہ کیا گیا تھا کہ یہ دستاویز واپس نہ کی گئی تو اس کے نتائج ہوسکتے ہیں، کیا سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو بھی فراہم نہیں کرسکتے؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ اس ڈاکیومنٹ کو سیکرٹ رکھنا ایک الگ چیز ہے لیکن عدالت کو دکھانے کا تو طریقہ کار موجود ہے، کیا پراسیکیوشن سزائے موت مانگ رہی تھی، پراسیکیوشن نے اس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی، وہاں بھی اس کا متن دکھانا مناسب نہیں سمجھا گیا، وہاں قانون میں لکھا ہوا ہے آپ عدالت کو خالی کرا سکتے ہیں، پورا کیس اس ڈاکیومنٹ کے اردگرد کھڑا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کے وکلا سے کہا کہ وہ ان نکات پر کل دلائل دیں۔ بعدازاں عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل (منگل) تک ملتوی کردی۔