کراچی(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو جیم خانہ کی عمارت کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندو جیم خانہ کیس کے فریقین ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، جس کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما رمیش کمار سے کہا کہ آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں کرنے دیں گے .
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ کے روبرو ہندو جیم خانہ کی ملکیت سے متعلق سماعت ہوئی .
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ کمشنر کراچی کو ناپا کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کیس چلانا ہے تو اپنا کیس چلائیں ناپا کو چھوڑیں . درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہندو جیم خانہ ہندو برادری کی ملکیت ہے، سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ حکومت سندھ نے ناپا کو مختلف متبادل آپشنز دیئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کمیونٹی کا تعین کیسے کرتے ہیں .
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کمشنر صاحب سے زمین کے رقبے کے حوالے سے تفصیل طلب کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی سرکاری افسر کے ساتھ صاحب کا لفظ نہیں لگا سکتے، آپ کوئی ایک کتاب بتا دیں جہاں کمشنر صاحب لکھا ہو، کمشنر کمشنر ہے بس، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ایم پی اے صاحب نہیں ہوسکتے، رمیش صاحب ہوسکتے ہیں .
زمین حکومت سندھ کے حوالے سے کردیں، رمیش کمار
رمیش کمار نے کہا کہ آپ زمین حکومت سندھ کے حوالے کردیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ شہر میں کوئی ایسی عمارت بتا دیں جو حکومت سندھ نے محفوظ رکھی ہو، رمیشن کمار نے جواب دیا کہ گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس ہیں .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہاں عوام نہیں جاتے، اس لیے صاف ہیں، جو عوامی مقامات ہیں وہ بتائیں کسی کو صاف رکھا ہو، آپ گورنر ہاؤس کے باہر احاطہ دیکھ لیں جاکر کیا حال ہے، دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے باہر کنٹینر لگے ہوں، رمیش کمار نے کہا کہ پاکستان ہے .
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وہ وقت بھی آئے گا، جب حکمرانوں کو اپنے بجائے لوگوں کی فکر ہوگی، ہمیں آپ سے زیادہ ہندو برادرہ کی فکر ہے، آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم نہیں کرنے دیں گے .
چیف جسٹس نے رمیش کمار کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ آج کل آپ کی پارٹی کون سی ہے، بدلتی رہتی ہے یا وہی ہے، رمیش کمار نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پارٹی بدلتے رہتے ہیں، جہاں بھی ہوں ایک پارٹی میں رہیں، آپ کو تو یہ جگہ نہیں دیں گے آپ اس کو کل کچھ اور بنادیں گے .
چیف جسٹس نے خوش گوار موڈ میں مکالمے میں کہا کہ آج کل بڑا مسلہ ہوتا ہے، ہمارے ہر کمنٹس چھاپ دیتے ہیں، آج کل ہر چیز خبر بن جاتی ہے، ہمارے لائٹ کمنٹس بھی چھاپ دیتے ہیں .
درخواست گزار کے وکیل نے تیاری کے لیے ایک ماہ کی مانگ لی تو چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ کبھی ایرانی ہوٹل گئے ہیں، اس میں کوئی معیوب بات نہیں، میں بھی جاتا تھا وہاں، ایرانی ہوٹل میں لکھا ہوتا تھا ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، آپ بھی التوا مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں .
جیم خانہ کی عمارت سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی، وکیل درخواست گزار
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ کیس چلائیں بتائیں یہ جگہ کس کی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ بلڈنگ سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی تھی، تقسیم کے بعد 1958 میں عمارت کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو مذہبی جگہ ہے عبادت گاہ ہے یا کیا ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ گل رل عمارت ہے، سرسید یونیورسٹی بھی ہے اور ناپا بھی ہے . رمیش کمار نے کہا کہ یہ ملکیت ہندوؤں کی ہے، ہمیں یہاں اپنی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، یہاں مندر بھی موجود ہے، اوم کے نشانات موجود ہیں .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں، وہاں بسم اللہ لکھا ہوا ہے تو وہ مسجد تو نہیں ہوجائے گی، آپ تو پارلیمنٹیرین ہیں ایوان میں اوپر کیا لکھا ہے، رمیش کمار نے کہا کہ وہاں کلمہ لکھا ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو کیا وہ مسجد کہلائے گی، ایسے دلائل مت دیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو .
عمارت پولیس اور نجی ملکیت میں جانے پر آپ کو اعتراض نہیں تھا، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
رمیش کمار نے کہا کہ یہاں 15 لاکھ ہندو رہتے ہیں، یہ ہندوؤں کی تقریبات اور رسومات ادا کرنے کی جگہ ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی اپنی تقریبات کریں، یہ تو اچھا ہے جگہ محفوظ ہے، آپ 2002 سے پارلیمنٹیرین ہیں، یہ جگہ پولیس کے پاس گئی، آپ کو اعتراض نہیں تھا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پاس گئی تو، آپ کو اعتراض نہیں تھا، نجی ملکیت میں گئی تو آپ کو اعتراض نہیں تھا .
پی پی پی رہنما نے کہا کہ ہمارا دعویٰ 39 ہزار مربع گز زمین کا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فریق بن کر ہمارے سامنے ہیں ہی نہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ویسے کچھ بھی ہوں گے، مگر اس کیس میں آپ نہیں ہیں، آپ کا ذکر ہی نہیں کہیں .
رمیش کمال نے کہا کہ ہمیں کسٹوڈین بنایا جائے تاکہ ہندو برادری اپنی سوشل سرگرمیاں کرسکے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ہندو برادری کو الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں .
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہیریٹیج بلڈنگ کے تحفظ کے لیے لوگوں کے نام بتائیں جو کام کرسکیں، آپ لوگ ماہرین کے نام دیں تاکہ چند لوگوں کو ذمہ داری دی جائے، جس پر وکلا نے ماروی مظہر، عارف حسن، جاوید جبار، یاسمین لاری اور دیگر نام تجویز کردیے، رمیش کمار نے کہا کہ مجھے اور دیگر لوگوں کے ساتھ انسپیکشن کی اجازت دی جائے .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اس سے الگ رکھیں گے، آپ کے پاس پارلیمنٹ میں بہت کام ہے، حکومت سندھ نے ایک کام صرف اچھا کیا ہے، جیم خانہ کا تحفظ یقینی بنایا ہے . ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے محکمہ ثقافت کی کمیٹی موجود ہے .
سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو عمارت کا تحفظ یقینی ننانے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ فریقین چاہیں تو ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، فریقین کی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا .