فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ میں آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوا، ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کا حمایت پر شکریہ ادا کرتا ہوں، میں پرو آرمی ہوں، کسی کے پیر پکڑ کر یا کمپرومائز کرکے نہیں آیا، نہ ہی اپنے کیس معاف کرا کے آیا ہوں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں پرو آرمی اور سلیکٹوپرو جوڈیشری ہوں۔ ان میںجو اچھے اور ایماندار جج ہیں۔ میرا چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس عائشہ ملک اور اور منصور علی شاہ سے واسطہ پڑا۔ تینوں ٹاپ موسٹ جج کیونکہ طاقت کے محور پر بیٹھنے کے باوجود وہ بہت شائستہ اور حلیم تھے۔ انہوں نے مجھ سے جو سوال کیا وہ فیئر تھے۔ ان کے اس ایکٹ کی وجہ سے میں نے سینیٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دیا۔
باقی بے شرموں کی طرح میں عمران خان کو چھوڑ کر، عمران خان کے خلاف بیان دے کر ایم این اے یا سینیٹ کی سیٹوں پر نہیں بیٹھا۔ یہ سیٹ واپس کرنے کیلئے اخلاقی جذبہ ان تین ٹاپ ججز نے مجھ میںڈالا۔ اس کے ساتھ میں نے وہ جج بھی دیکھے ہیں جو چھ وی لاگز پہ قانون کو سائڈ پر کر دیتے ہیں اور اپنی بلے بلے کرنے کے لیے نیاقانون ایجاد کر دیتے ہیں۔ میں تنقید کرتے ہوئے ان کےلئے کہتا ہوں کہ وہ چھ کو نو کرتے ہیں اور نو کو چھ کرتے ہیں۔ اب بھی ہو رہا ہے۔ اور آج بھی میں تنقید کروںگا۔ لڑوں گا اس چیز پر تاکہ ہماری عدلیہ 149سے ون نمبر کی طرف چلے ورنہ جس سپیڈ سے ہم جا رہے ہیں ہم 209 ویں نمبر پر چلے جائیں گے۔ جب میں 14، پندرہ سال پہلے تحریک انصاف میں آیا تھا تو میں بھی آئڈیلسٹک تھا، نیا پاکستان، نئی دنیا، کوئی کرپشن نہیں، لیکن سب کچھ الٹا ہوگیا۔ جو پہاڑا خان صاحب نے پڑھایا تھا ہمیں آج بھی یاد ہے۔
وہ بھول گئے تو بھول گئے۔ فیصل واوڈا نے کہا میں جسٹس بابر ستار کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بہتر انسان یا جج ہیں کیونکہ ہماری حکومت کے دوران ان کی تقرری ہونی تھی۔ لیکن میں نے میں نے اپنی کابینہ میں ان کی بہت برائی سنی ہے۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ ہم لابیز بناتے ہیں۔ داماد، بہنوئی، باپ ، چچا، دوستی یاری والے جج بھی ہم بناتے ہیں۔ میرا پیمانہ یہ ہے کہ کسی کی بہت برائی ہو رہی ہو اس میں کوئی نہ کوئی سپارک ہوگا جس کے لیے اس کی برائی ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک کے اندر جب آپ کسی کو بلاوجہ رگڑ رہے ہوں نہ تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اس آدمی کے اندر کوئی دم خم ہے جو اس کو رگڑ رہے ہیں۔ کیبنٹ چل رہی تھی، بابر ستار کا نام آیا اور چاروں طرف سے ان کی برائیاں شروع ہوگئیں۔
میں نے کہا کہ اس نے ہمارے خلاف کوئی ججمنٹ تو نہیں دی۔ بہرحال قصہ مختصر بابر ستار یا چھ جج یا جو بھی محترم جج ہیں میرے صرف تین سوال ہیں۔ بابر ستار صاحب نے کہا کہ کوئی مداخلت کر رہا ہے۔کیا اس وقت یہ ضمیر، یہ اصول نہیں جاگے جب نسلا ٹاور گر رہا تھا۔ اگر ہائیکورٹ کا بندہ بھی، یا سیشن کورٹ کا بندہ بھی کھڑا تو ہو۔ چلیںآپ کی بات کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ جب سیشن کورٹ کے جج کی بیوی نے غریب کا سر کھولا تھا۔ غریب کی بیٹی پر تشدد کیا تھا، سڑک پر پھینک دیا تھا تو اس وقت ہائیکورٹ نوٹس لے لیتا۔ اسی طریقے سے آج ان پر جن چیزوں کے الزامات آ رہے ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ وہ بابر ستار پر الزام ہے ، سچ ہے یا جھوٹ ہے۔ سوشل میڈیا پر آ رہا ہے کہ وہ کوئی سکول چین چلا رہے ہیں۔ اس کے مالک ہیں یا وہ سیٹیزن ہیں۔ اگر وہ ہیں یا نہیں ہیں ۔ تو وہ کلیئر کر دیں آ کر۔ ان کا کام ہے۔ گرین کارڈ لیا جاتا ہے ۔
میں تو وہاں پیدا ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ گاﺅں میں پیداہوں گا یا امریکہ میں ہوں گا۔ دوسراجب میں نے اپنی شہریت چھوڑی، میری اولاد، میری بیوی، میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی eligible تھے ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ کوئی بھی سیٹیزن نہیں ہے۔ تو پھر میری پاکستانیت پر سوال کرنے والوں پر تو میں سوال کروں گا۔ فیصل واوڈا نے کہا آپ پی ٹی آئی کو اصول پسند کہہ رہے ہیں، آپ کے اصول تب کہاں تھے جب 2018 میںکندھے پر بیٹھ کر آئے تھے۔ آج سی ایم سمیت خیبرپختونخوا کی جو کابینہ ہے چیک کر لیں کہ کون کس کے ساتھ کتنے رابطے میں ہے۔ وہ جو تصویر کھنچی ، وہ ایسے ہی کھنچ گئی۔ آج گورنمنٹ چل رہی ہے، ایسی ہی چل رہی ہے؟ ایسا نہ کریں۔ بولیںاگر وہ بے حیا اور بے شرم ہیں تو ہم بھی بے حیا اور بے شرم ہیں۔ یہ بولیں قبول کریں۔ انہوں نے کہا کیمرے لگانا گھٹیا کام ہے۔ جب عدالتی نظام کے اندر ایک عورت اور ایک آدمی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا نکاح ہے جبکہ پرانا خاوند کہہ رہا ہے کہ نکاح نہیں ہے۔ تو ادھر بھی سوال اٹھائیں۔ ادھر بھی ضمیر پر کھڑے ہوں۔
میں اعلی عدلیہ کے اندر کے نظام کی بات کررہا ہوں۔ وہاں سے آواز اٹھی؟ادھر سے کوئی جج کھڑا ہوا اور کہا نکاح کے اوپر زنا کا کیس بنا رہے ہو۔ اس کیس پر ہم سب کھڑے ہوتے ہیں۔ استعفیٰ دیتے ہیں۔ پھر میرٹ اور اصول کی بات کریں گے۔ پھر آپ کیمرے کی بات کریں گے۔ پھر ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ آپ جب پچیس سال تک لوگوں کو انصاف نہیں دیں گے۔ پھر آپ کدھر کھڑے ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ کے اندر سے ، عدالتی نظام سے آواز اٹھنی چاہیے تھی کہ آپ جج کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ آپ نے بھٹو صاحب مار دیئے۔ چھیالیس سال بعد گیلری میں آکر آپ نے بتا دیا کہ ضیا الحق نے جج کی کنپٹی پر بندوق رکھی۔ جج قلم توڑ دیتا، کھڑا ہو جاتا ۔ باہر آ کر کہتا مجھے مار رہے ہیں۔ نسلا ٹاور آپ نے گرا دیا آپ کانسٹی ٹیوشن ٹاور گرائیں۔ کیوں نہیں گراتے۔ کیوں کہ ان کے بیس بیس گھر ہیں مالکوں کے۔ وہ آدمی گلے میں آ جائے گا۔ جوڈیشری نے ریکوڈک میں اربوں روپے کا نقصان کر دیا۔ پے کریں۔ پی آئی اے میں سٹے آرڈر دے دے کر مار دیا ۔ پے کریں۔ پے منٹ کہاں ہے؟نظام کی اصلاح کہاں ہے۔