سولر پینلز کی دھڑا دھڑانسٹالیشن سے حکومت پریشان ؟ نیٹ میٹرنگ نرخ گرانے کی تیاری کر لی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) بجلی کے بھاری بلوں سے بچنے کے لیے گھریلو صارفین نے بڑے پیمانے پر سولر پینلز انسٹال کر لیےم بجلی خریدنے والے نہ رہے تو حکومت کے لیے پریشانی بڑھ گئی اور حکام نے نیٹ میٹرنگ میں صارفین کو ملنے والے بجلی کے نرخ کم کرنے کی تیاری کرلی ہے .

روزنامہ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق نیٹ میٹر نگ میں اس وقت صارفین کو 21 روپے فی یونٹ مل رہے ہیں لیکن یہ نرخ کم کر کے 11 روپے فی یونٹ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، نرخوں میں اس بھاری کمی سے صارفین کو 10 روپے فی یونٹ کا نقصان ہوگا .

آج نیوز کے مطابق حکومت کو پریشانی یہ ہے کہ اسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو کپیسٹی چارجز کی مد میں مخصوص رقم ادا کرنی ہوتی ہے خواہ وہ ان سے بجلی خریدے یا نہ خریدے .

کورٹ نمبر 1کا چارج ہوتا تو اس کیس کا ٹرائل ایک ہفتے میں ختم کر دیتے،جج اے ٹی سی کے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں ریمارکس
ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر پینلز نصب کیے جانے کے باعث کپیسٹی چارجز کی ادائیگی کے حوالے سے حکومت کا پلان عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے، جس= شخص کے پاس پیسے ہیں وہ سولر پینل انسٹال کر رہا ہے جبکہ بجلی کے چارجز کی ادائیگی کا بوجھ غریب صارفین پر منتقل ہو رہا ہے .

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت شمسی بجلی کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتی لیکن 21 ، 22 روپے فی یونٹ کا ریٹ ناقابل قبول ہے .

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نرخ پر سولر پینل لگوانے والے اپنی تمام لاگت صرف ڈیڑھ سال میں وصول کر رہے ہیں جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ سولر پینل لگوانے کی لاگت وصول کرنے کا دورانیہ بڑھ کر 10 سال ہو جائے . پاور ڈویژن کی دلیل ہے کہ صارفین نے سولر سسٹم اپنی ضرورت کے لیے لگائے ہیں لہذا جو اضافی بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کی واپس خریداری کے نرخ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی قوت خرید کے مطابق ہونے چاہیں .

ان ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 6 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل سولر پینل درآمد کیے جا چکے ہیں جبکہ شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار تین ہزار میگا واٹ تک جا پہنچی ہے . شمسی توانائی سے کتنی بڑی مقدار میں بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی مجموعی کھپت 8 ہزار میگا واٹ سے لے کر 23 ہزار میگا واٹ تک ہے .

دوسری جانب بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں 35 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور معاہدوں کے تحت یہ تمام بجلی پاکستان کو خریدنی ہے یا اس کی مد میں کپیسٹی چارجز ادا کرنے ہیں . پاکستان میں نیٹ میٹرنگ کا اغاز 2015 میں ہوا تھا اور ابتدا میں صارفین سے خریدی کے بجلی کے نرخ کافی کم تھے 2022 میں اس ریٹ میں اضافہ کیا گیا لیکن پھر گزشتہ برس یعنی 2023 سے نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی .

اس وقت سولر ایسوی ایشن نے نرخ کم کرنے پر کڑی تنقید کی تھی جس کے بعد یہ فیصلہ موخر کر دیا گیا تھا .

. .

متعلقہ خبریں