بلوچستان: معلومات تک رسائی کاقانون استعمال کرنے والے بلیک میلر؟

مطیع اللہ مطیع
بلوچستان میں معلومات تک رسائی کے قانون کی منظوری کو 3سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود قانون کو عملی شکل نہیں دی جاسکی ،قانون کے تحت انفارمیشن کمیشن نہ ہونے سے عوام بلخصوص معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال کرنے والے صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو مشکلات کاسامناہے .
ایسے ہی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا صحافی ایم خان کاکڑ ہے جنہوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء وطالبات کو ملنے والی لیپ ٹاپس کی ڈیٹا کیلئے معلومات تک رسائی کے قانون کا سہارا لیا .


وہ کہتے ہیں کہ میں گزشتہ سال معلومات تک رسائی کے تحت ایک درخواست بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر آفس میں جمع کرائی جس کے بعد انہیں بتایاگیاکہ ان سے حال احوال کیاجائے گا تاہم قانون کے مطابق 15دن گزرنے کے دوران دو بار ٹیلفونک پررابطہ کرنے پر جواب دیاگیاکہ اب تک درخواست کو نہیں دیکھا ہے تاہم تیسری بار وہ خود یونیورسٹی گئے .
وہ کہتے ہیں کہ میں یونیورسٹی کے متعلقہ آفیسر سے ملے تو یونیورسٹی کے آفیسر نے موقف اختیارکیاکہ ہم آپ کو ڈیٹا نہیں دے سکتے ،وائس چانسلر نے منع کیاہے جب انہیں بتایاکہ قانون کے مطابق وہ پابند ہوتاہے کہ وہ معلومات فراہم کرے تو آفیسر نے کہاکہ آپ ایک اور درخواست دیں پھر ایک اور درخواست دی گئی اور 15دن کے بعد مذکورہ آفیسر کی جانب باقاعدہ معلومات دینے کی بجائے درخواست پر قلم سے صرف حال ہی میں ملنے والی ڈیٹا لکھ کردیدی . جب موصوف سے استفسار کیاکہ کل کو اگر وہ مکر گئے تو پھر تب موصوف نے کہاکہ آپ بلیک میلنگ کررہے ہیں ایسا تھوڑی ہوتاہے کہ کوئی بھی آئے اور ہم اس کو ڈیٹا دیں ہمارے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے .
ایم خان کاکڑ کہتے ہیں کہ اگر انفارمیشن کمیشن ہوتی تومعاملہ وہاں لیکر جاتااب کمیشن ہی نہیں ہے تو معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کیسے ہوگا؟
وہ کہتے ہیں کہاگرمعلومات رسائی کے بل کو کاغذات سے نکال کر عملی جامہ پہنایاجائے تو اس سے نہ صرف صحافیوں کیلئے مکمل معلومات تک رسائی کے راستے ہموار ہونگے بلکہ عوام کو بھی اپنے وسائل کے استعمال سے متعلق درست معلومات میسر ہونگی .
بلوچستان کی صوبائی کابینہ نے معلومات تک رسائی کابل یکم فروری2021 کو منظور کیا تھا اور اس کے بعد گورنر بلوچستان نے اس پر دستخط کیے تھے اس وقت کے وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں بدھ 28 دسمبر 2022 کو ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں قواعد و ضوابط کی منظوری دی گئی . صوبائی کابینہ سے قانون کی منظوری کو 3سال 2ماہ ہونے کو ہے قواعد وضوابط کو بنے ہوئے ایک سال 4ماہ ہونے کو ہے لیکن انفارمیشن کمیشن کی تشکیل نہ ہوسکی .
سماجی کارکن ورائٹ ٹو انفارمیشن پر کام کرنے والے میر بہرام لہڑی کے مطابق معلومات تک رسائی کا قانون دنیا کے ایک 129 ممالک میں رائج ہے، اور اس سلسلے میں عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کا نمبر 32واں ہے، جبکہ انڈیا، سری لنکا اور مالدیپ آگے ہیں .
کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر محمد قاسم مندوخیل نے کہتے ہیں کہ قانون کو عملی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں موجود تمام نکات مکمل کئے جائیں لیکن معلومات تک رسائی کا اہم قانون منظور ہوگیا قواعد وضوابط بن گئے لیکن انفارمیشن کمیشن میں تاخیر سمجھ سے بالاترہے .
محمدقاسم مندوخیل کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائل شہریوں کا بنیادی حق ہے جمہوری معاشرے میں یہ حق عوام کو میسر ہونا بہت ضروری ہے اور یہ جمہوریت کا حسن ہے جس میں ہر انسان کو ان کے مکمل حقوق دئیے جائیں . معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کرنے کیلئے صحافی، سول سوسائٹی سمیت شہریوں کو معلومات تک رسائی کی درخواستیں بھیجنی چاہیے تاکہ کلچر فروغ پائے اور آر ٹی آئی بل کی عملداری کرپشن پر بھی قابو پانے کا بہتر ذریعہ ثابت ہوسکتاہے .
بلوچستان میں معلومات تک رسائی کے قانون کا طریقہ کار
کوئی بھی شہری جو پاکستان کی شہریت رکھتاہوں کسی بھی سرکاری محکمہ ،گورنر اوروزیراعلی سیکرٹریٹ، بلوچستان اسمبلی ،ڈسٹرکٹ کورٹس سے معلومات حاصل کرنا چاہتا /چاہتی ہوںوہ سادہ کاغذ پر متعلقہ محکمے کے انفارمیشن آفیسر کو تحریری درخواست دیگا . جس کے بعد درخواست وصول کرنے والا آفیسر 15دن یا زیادہ سے زیادہ 30دن کے اندرشہری کو مطلوبہ معلومات تحریری صورت میں فراہم کریگاانسانی جان کے تحفظ کی صورت میں2دن کے اندر معلومات کی فراہمی ہوگی . 10صفحات سے زیادہ پر چارجز عائد ہونگے جودرخواست گزار ادا کرے گا .
اگرمتعلقہ آفیسر وقت مقررہ کے اندرمعلومات کی فراہمی کو یقینی نہیں بناتے تو درخواست گزار آر ٹی آئی کے تحت قائم انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے تحریری شکایت نامہ دیگا . کمیشن 60یوم کے اندر موصول ہونے والے شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے فیصلہ سنانے کا پابند ہوگی، کمیشن کے پاس متعلقہ آفیسر جس نے شہری کو مقررہ وقت کے اندر معلومات فراہم نہ کرنا کا مرتکب ٹھہرا اسے سزا کے طور پر 2سال تک سزا یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں سنانے کا اختیار رکھتا ہے .
ایڈ بلوچستان کی جانب سے بلوچستان میں معلومات تک رسائی کے قانون پرعمل درآمد کا تعین کیاگیاہے اس رپورٹ میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست جمع کرانے ،2005اور2021کے قوانین کاموازنہ ،عملدرآمد میں درپیش مشکلات کے علاوہ سروے اور اپنی سفارشات شامل کی گئی ہیں .
سروے میں 12فیصد ہائی سکول ،25فیصد بیچلرز اور59فیصد ماسٹرز ڈگری رکھنے والوں نے حصہ لیاجس میں سرکاری محکموں سے متعلق حاصل کرنے والوں میں 15.4فیصد مطمئن ،24فیصد غیرمطمئن ،31فیصد غیرجانبدار جبکہ 28فیصد جزوری طورپر غیر مطمئن تھے .
سابق سیکرٹری اطلاعات وموجودہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن محمد حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت بلوچستان کا کوئی بھی شہری کسی بھی ادارے یا محکمہ سے معلومات حاصل کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے جبکہ صوبائی محکمے اور ادارے درخواست گزار کو معلومات تک رسائی قانون کے تحت معلومات فراہم کرنے کا پابند ہونگے .
محمدحمزہ شفقات نے 2درجن سے زائد محکموں کے انفارمیشن آفیسرز کانوٹیفکیشن بھی جاری کردیا تاہم انفارمیشن کمیشن کا قیام کا وعدہ پورا نہ ہوسکا .
ایڈ بلوچستان نے مطالبہ کیاہے کہ حکومت بلوچستان کے قیام میں تیزی ،انفارمیشن کمشنر اور چیف انفارمیشن کو فوری طور پر تعیناتی عمل میں لائیں .

. .

متعلقہ خبریں