پی ٹی آئی کارکنان کے پی حکومت سے ناراض کیوں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم کارکن ہیں اور پارٹی کے ہر احتجاج اور جلسے میں پیش پیش رہتے تھے لیکن 9 مئی 2023 کے بعد ان کی زندگی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے وعدوں کے باجود وہ اب تک ان مسائل سے ابھر نہیں سکے ہیں۔
پشاور کی انسداد دہشتگری عدالت میں پیشیاں بھگتنا ا اب ان کی زندگی کا ایک معمول بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘نہ میں نے کسی کا خون کیا اور نہ کسی دہشتگرد تنظم کا ممبر ہوں میرا قصور بس اتنا ہے کہ میں پی ٹی آئی کا کارکن ہوں‘۔
احمد خان نے بتایا کہ 9 مئی کے روز احتجاجی مظاہروں کے بعد ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 16 مئی کو انہیں گرفتار کیا گیا اور 15 دن جیل میں رہنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی ملی جبکہ مزید جیل جانے اور پولیس گرفتاری سے بچنے کے لیے انہیں صوبہ چھوڑنا پڑا اور روپوشی اختیار کرنی پڑی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد، پھر ابیٹ آباد اور آخر میں گلگت بلتستان میں روپوش رہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘وہ بڑا سخت وقت تھا اور ہر وقت گرفتاری اور پولیس تشدد کا ڈر لگا رہتا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ مجھے مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی چھوڑنی پڑی‘۔
10 مقدمات، 40 سے زائد دفعات
احمد خان نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کے بعد پتا چلا کہ انہیں پشاور کے مختلف تھانوں میں 10 سے زائد مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر 40 سے زائد دفعات ان کے خلاف لگائی گئی ہیں جو پرتشدد مظاہرے، سرکاری املاک اور اہلکاروں پر حملے، دہشتگردی اور دیگر سے متعلقہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روپوشی میں بڑی مشکل سے وقت گزر رہا تھا اور جب الیکشن کا اعلان ہوا تو ایک امید پیدا ہو گئی کہ اگر ان کی حکومت آ گئی تو انہیں اور ان جیسے دیگر کارکنان کو ریلیف مل جائے گا اور اسی امید کے ساتھ وہ گرفتاری کے ڈر کے باجود ووٹ ڈالنے پشاور آگئے۔
احمد نے کہا کہ ‘جوں ہی الیکشن نتائج آنے شروع ہوئے مجھے لگا کہ اب ہم ازاد ہو گئے، کیسز بس ختم ہو گئے اور پارٹی قائدین بھی بار بار سب کو کہہ رہے تھے کہ حکومت بنتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا بلکہ وزیراعلیٰ الٹا ہم پر جھوٹی ایف آئی آر کرنے والوں کو شیلڈ دے کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں‘۔
احمد خان نے بتایا کہ 9 مئی کے بعد ان جیسے سینکڑوں کارکنان کو مختلف ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا اور صرف پشاور میں ہی 650 کارکنان گرفتار ہوئے تھے جو عدالتوں میں کیسز کا سامنا کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد کیسز ختم نہ ہونے پر مایوسی سے دوچار ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک اور کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خیبر پختونخوا میں حکومت بننے کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کیسز کا سامنا کرنے والے کارکنان اور وکلا ٹیم کے ساتھ خصوصی ملاقات کی تھی جس میں پولیس اور انتظامی افسران کو جلد عہدوں سے ہٹانے اور کارکنان پر درج مقدمات ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ساتھ ہی 9 مئی اور اس کے بعد کارکنان پر درج مقدمات کی عدالتی انکوائری کا بھی وعدہ کیا گیا تھا جن پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس افسران کا تبادلہ تو دور کی بات الٹا وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی پر انہیں داد تحسین پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سابق ایس ایس پی پشاور کاشف آفتاب عباسی 9 مئی کے بعد کارروائی میں پیش پیش تھے لیکن جب ان کا تبادلہ ہوا تو وزیراعلیٰ نے اپنے آفس بلا کر انہیں شیلڈ دی جو کارکنان کے زخمیوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ کارکنان اب بھی کیسز کا سامنا کر رہے ہیں اور عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
ایس ایس پی کو شیلڈ دینا وزیراعلیٰ کی غلطی ہے، رہنما پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی شیر علی ارباب نے تبادلہ ہونے والے ایس ایس پی پشاور کو شلیڈ دینے کو وزیراعلیٰ کی غلطی اور کوتاہی قرار دیا ہے۔
وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس ایس پی مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں میں فرنٹ لائن پر تھے اور انہیں شلیڈ دینے سے کارکنان مایوس ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔
’سٹی پولیس چیف سمیت دیگر افسران کا تبادلہ بھی جلد متوقع ہے‘
شیر علی ارباب نے دعویٰ کیا کہ جلد آئی جی خیبر پختونخوا بھی تبدیل ہوں گے جس کے بعد پشاور پولیس چیف اور دیگر اہم عہدوں پر تعنیات پولیس افسران کا بھی تبادلہ ہو گا۔
صوبائی حکومت کا 9 مئی واقعات کی عدالتی انکوائری کرانے کا فیصلہ
شیر علی ارباب جو پی ٹی آئی پشاور ڈیثرون کے صدر بھی ہیں نے بتایا کہ وعدے کے مطابق تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشنل انکوائری کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ قانونی معمولات دیکھے جائیں جس کے بعد وزیر اعلیٰ چیف جسٹس سے ملاقات کرکے جوڈیشل انکوائری کے لیے جج کی تعنیاتی کی درخواست کریں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی تک ایک کیس بھی ختم نہیں ہوا ہے اور کارکنان عدالتوں میں کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’تمام کیسز ایک ساتھ ختم ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل کی ٹیم تمام معاملات کو دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے کیسز تیار کرکے ہائیکورٹ میں دائر کرے گی جس میں تمام کیسز کو ختم کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
’تمام کیسز کی پیروی پارٹی وکلا کر رہے ہیں‘
پی ٹی آئی وکلا ونگ سے وابستہ ایک وکیل نے بتایا کہ 9 مئی مقدمات کی پیروی انصاف وکلا ونگ کے ممبر کر رہے ہیں اور تمام کارکنان کے کیس مفت لڑ رہے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر کارکنان فیس نہیں دے سکتے ہیں اس لیے پارٹی نے کارکنان کی مالی معاونت کی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے بتایا کہ 9 مئی کے بعد اکثر متحرک کارکنان زیر عتاب تھے جس کی وجہ سے وہ مالی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی قائدین تمام کارکنان کے گھر والوں کو مالی مدد فراہم کر رہے ہیں اور انہیں عید پر بھی راشن دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے دوران جاں بحق کارکنان کے اہل خانہ کو پارٹی کی جانب سے 40 لاکھ روپے سے زائد امداد دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’پارٹی قائدین ہر طرح تعاون کر رہے ہیں لیکن جب تک کیسز ختم نہیں ہوتے اور پولیس اہلکاروں اور افسران کو سزا نہیں ملتی کارکنان علی امین گنڈاپور سے خوش نہیں ہوں گے‘۔