عدالت نے استفسار کیا کہ بشری بی بی کو کس کیس میں کب سزا ہوئی، جس پر وکیل عثمان ریاض گل نے بتایا کہ بشری بی بی کو توشہ خانہ اور عدت نکاح کیس میں سزا ہوئی، دونوں کیسوں میں غیر قانونی طریقے سے ٹرائل چلا کر سزا دی گئی . وکیل نے مؤقف اپنایا کہ سزا ہونے کے بعد وارنٹ گرفتاری جاری ہوتا ہے، جو سپرنٹنڈنٹ جیل کو جاتا ہے، توشہ خانہ میں 31 جنوری جبکہ عدت نکاح کیس میں 3 فروری کو سزا ہوئی . وکیل بشری بی نے کہا کہ سزا سنانے کے وقت بشری بی بی کورٹ میں موجود نہیں تھیں، انہوں نے خود سرنڈر کیا، اس کے بعد انہیں چیف کمشنر کے آرڈر پر بنی گالہ سب جیل بنا کر وہاں منتقل کردیا گیا . وکیل عثمان ریاض گل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سب جیل کا آرڈر چیف کمشنر آفس نے جاری کیا اور اسی وقت منتقلی بھی ہوگئی، پریزن ایکٹ کے تحت بنی گالہ گھر کو سب جیل کا درجہ دیا گیا . عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل رولز پڑھ لیں وہ کیا کہتے ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ بشری بی بی ٹرائل کورٹ کے آرڈر کے مطابق اڈیالہ جیل گئیں، جو سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بھیجا گیا تھا . وکیل عثمان ریاض کا کہنا تھا کہ بعد میں وزارت داخلہ کے حکم پر چیف کمشنر نے منتقلی کا غیر قانونی نوٹی فکیشن جاری کیا، اڈیالہ جیل سے بنی گالہ سب جیل منتقلی سے متعلق متعلقہ حکام کی کوئی ہدایت شامل نہیں تھی . وکیل نے دلائل دیے کہ چیف کمشنر نے جو نوٹی فکیشن جاری کیا وہ متعلقہ حکام یعنی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی ہدایات نہیں تھیں، صوبائی حکومت نے کوئی ایسی ہدایت جاری کی نہ آئی جی جیل خانہ جات نے کوئی ہدایت کی . وکیل بشری بی بی نے مؤقف اپنایا کہ بنی گالہ سب جیل منتقلی کا چیف کمشنر کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقلی کا کیا پراسس ہوتا ہے؟ وکیل کا کہنا تھا کہ قید کی جگہ کا تعین ٹرائل کورٹ نے کرنا تھا چیف کمشنر نے نہیں، بشری بی بی کی قید کا حکم نامہ اڈیالہ جیل کا تھا . وکیل عثمان گل نے استدعا کی کہ چیف کمشنر کا بنی گالہ سب جیل منتقلی کا نوٹی فکیشن کلعدم قرار دیا جائے . بشری بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل کے دلائل مکمل ہو گئے، اس کے بعد اسٹیٹ کونسل نے دلائل کا آغاز کیا . وکیل عثمان گل کا کہنا تھا کہ ایک ہی دن میں چند گھنٹوں میں سب جیل کا سارا عمل مکمل کر لیا گیا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ گنجائش سے زیادہ خواتین ہیں انہیں نہیں رکھ سکتے . جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرا تو خیال ہے یہ پہلے سے طے کیا جا چکا تھا کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ منتقل کرنا ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ نوٹی فکیشن ایک منٹ میں تیار ہو گیا؟ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا کہ بشریٰ بی بی کو منتقل کرنا ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسٹیٹ کونسل سے مکالمہ کیا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتوں میں سیکیورٹی خطرہ ہے، جیل میں سماعت ہوگی، دوسری جانب آپ کہتے ہیں کہ جیل میں سیکیورٹی خطرہ ہے، بنی گالہ گھر میں منتقل کرتے . جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بشری بی بی کو گھر بھیجنے کے بعد کتنی خواتین کو اڈیالہ جیل لایا گیا؟ جو 141 خواتین اسکے بعد لائی گئیں وہ کیا وہ کم استحقاق رکھتی تھیں؟ مزید ریمارکس دیے کہ جو خواتین بعد میں لائی گئیں انہیں بھی گھر بھیج دیں نا، اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ جیل میں خطرے کے باعث بشری بی بی کو بنی گالہ منتقل کیا گیا، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی بھی ایک ہائیکورٹ میں جواز پیش کر رہے ہیں کہ ہم نے ٹھیک کیا اور آئندہ بھی کریں گے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ خدا کا خوف کریں کبھی آپ کہتے ہیں عدالت پیش نہیں کر سکتے خطرہ ہے، کبھی آپ کہتے ہیں جیل محفوظ نہیں ہے، کیا آپ محفوظ ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر میری مرضی سے مجھے گھر میں قید کیا جائے تو میں بہت خوش ہوں گا، قیدی کی مرضی کے خلاف اس کی پراپرٹی کو سب جیل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ بعد ازاں، عدالت نے بشریٰ بی بی کو بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا . واضح رہے کہ 16 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست عدم پیروی پر خارج کر دی تھی جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ وکلا خود بھی نہیں چاہتے کہ بشری بی بی جیل چلی جائیں . بعد ازاں اسی روز سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سب جیل بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقلی سے متعلق درخواست بحالی کی اپیل دائر کردی تھی . 18 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقلی کی عدم پیروی پر خارج کی گئی درخواست کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی . پس منظر واضح رہے کہ 31 جنوری کو بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی . بعدازاں اسی روز عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی گرفتاری دینے کے لیے خود اڈیالہ جیل پہنچیں جہاں ان کو تحویل میں لے لیا گیا تھا اور بشریٰ بی بی کو بنی گالہ منتقل کرکے رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا . 6 فروری کو بشریٰ بی بی نے بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا تھا . 12 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالا کو سب جیل قرار دینے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوگئی تھی . 16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے رپورٹس سامنے آنے کے بعد ان کی فوری طور پر طبی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا تھا . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا .
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت کی، بشریٰ بی بی کی جانب سے وکلا عثمان ریاض گل عدالت کے سامنے پیش ہوئے .
متعلقہ خبریں