خدشات کے باوجود جام کمال کا ساتھ دیتے رہے، وزارت اعلیٰ کا فیصلہ بی اے پی ارکان پر منحصر ہے، یار محمد رند
سردار یارمحمدرند نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ مخلوط حکومت میں مسائل رہتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ موجودہ جام کمال کی حکومت تالاب میں پہلا پتھر میں نے پھینکا تھا جب عمران خان کوئٹہ آئے تھے پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ جانے سے انکار کیا جس پر عمران خان نے ہمیں ساتھ لے گئے،میرا جام سے کسی سیکرٹری پر لڑائی ہوئی اور نہ ہی اختیارات پر میرا اصل مسئلہ میگا پروجیکٹ پر 14ماہ محنت کی تھی وزیراعلیٰ کی منظوری چاہیے تھے ہم نے 33اضلاع میں انقلابی پروجیکٹ لارہے تھے جس سے تعلیمی میدان میں انقلاب آتا ہم نے جام کمال کو بریفنگ دی لیکن بجٹ کے آخری دن ہمارے پروجیکٹ کو نکال دیاگیا جس پر میں نے اسی دن استعفیٰ دیاتھا تین بار حکومتی وفد میرے گھر پر آئے اور یقین دہانی کرائی تین ماہ تک میں نے اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیا انہوں نے کہاکہ اتحادی جماعتیں صرف ایک نہیں بلکہ تین دفعہ میرے پاس تشریف لائے میرے جام کمال،ان کے اہل خانہ،والد اور دادا کے ساتھ کام کیاہے ہم ایک کولیک رہے ہیں اس کے باوجود میرے تحفظات تھے اس کے باوجود ہم نے جام کمال کاساتھ دیا چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے تحفظات اور اعتراضات بہت تھے لیکن اس کے باوجود ہم جام کمال کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے رہے . انہوں نے کہاکہ جام کی حکومت کا چلنا بی اے پی کامسئلہ ہے آئندہ بی اے پی جس کو آگے لائیں ہم اس کے ساتھ ہیں . بی اے پی اگر جام کمال کو وزیراعلیٰ رہنے دیتی ہے توہم خوش ہے اور اگر بی اے پی پارلیمانی قیادت جام کمال کو ہٹائینگے تو پھر ہم پارلیمانی اجلاس طلب کرکے فیصلہ کرینگے . انہوں نے کہاکہ بی اے پی کا وجود کس طرح آیا جس میں مختلف لوگ شامل ہیں پورے ضلع میں میرے مخالف کو80کروڑ روپے دئیے گئے جبکہ پارلیمانی لیڈر ہونے کے باوجود80روپے بھی نہیں دئیے گئے ہیں،بلوچستان کے وسیع ترمفاد اور بارڈر ایریا پرصورتحال کی وجہ سے خاموش ہوگئے ایک تعلیمی منصوبے کی وجہ سے وزارت سے استعفیٰ دیاہماری آج بھی خواہش ہے کہ بی اے پی آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کریں ہم نے اعتماد کا ووٹ جام کمال کودیاتھااگر بی اے پی فیصلہ کرتی ہے کہ جام کمال کوہٹا کر کسی اور کووزارت اعلیٰ سونپنا چاہتی ہے تو ہماری پارلیمانی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کریگی ہم بھیڑ بکری نہیں کہ جہاں باندھ دے ہم بیٹھ جائینگے،بلوچستان کے مسائل کو افہام وتفہیم کے ساتھ حل کیاجائے تو بلوچستان کے عوام کیلئے بہتر ہوگا . انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے اثرات دورے صوبوں پر نہیں پڑیں گے البتہ مرکز کے اثرات ضرور بلوچستان پرپڑتے ہیں اپوزیشن اورحکومتی ارکان کی جانب سے واپڈا کے خلاف قرارداد پر میں اپنے محکمے کی بجائے میں نے بلوچستان کاساتھ دیا تھا اور کہاتھاکہ بحیثیت اسپیشل اسسٹنٹ ٹو وزیراعظم ایک دن بھی معاملات بارے رابطہ نہیں کیاگیا اس بیان کے بعد جام کمال نے کہاکہ سرداررند استعفیٰ دیناچاہے تو وہ دے دیں جس کے بعد میں استعفیٰ دیکر دکھا بھی دیا انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی آپ کو جو ووٹ ملتے ہیں کیا وہ بلوچستان اور بلوچوں کے ہیں اور ہم جو ووٹ لیتے ہیں وہ ہندوستان یا افغانستان والے دیتے ہیں . . .