بلوچستان

ایرانی تیل اسمگلنگ سے متعلق لسٹ میں اسد اللہ بلوچ کا نام شامل کرنا الزام تراشی ہے، بی این پی عوامی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے مرکزی ترجمان نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا میں ایک لسٹ گردش کر رہی ہے جس میں مکران میں آئل کے کاروبار میں ملوث چند افراد کے نام دیے گئے ہیں ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ یہ لسٹ متعلقہ اداروں کی جانب سے شائع کیا گیا ہے اس لسٹ میں بی این پی عوامی کے مرکزی صدر میر اسداللہ بلوچ کا نام بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ الزام تراشی اور غلط بیانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے وفاقی اداروں کے اس لسٹ میں راجی راہشون کا نام شامل کرنے کی وجہ سے بلوچستان بھر سے بی این پی عوامی کے ہزاروں کارکنوں کی دل آزاری ہوئی ہے کیونکہ راجی راہشون واجہ میر اسداللہ بلوچ کا کردار بلوچستان بھر میں روز روشن کی طرح عیاں ہے آپ نے چالیس سال میں بلوچستان کے غریب اور نادار عوام کی بے لوث خدمت کی ہے آپ پر بغیر تحقیق کے آئل کے کاروبار کا الزام لگانا سورج کو انگلی سے چھپانے کی ناکام کوشش ہے جہاں تک بارڈر کا تعلق ہے بارڈر کا سارا کنٹرول وفاقی اداروں کے ہاتھ میں ہے بارڈر سے لیکر جس جس جگہ تیل جاتا ہے وہاں وفاقی فورس کے ناکے لگے ہوئے ہیں بارڈر میں کاروبار کیلئے ای ٹیگ اور اسٹیکرز بھی فورسز کی طرف سے جاری ہوئے ہیں اس کے باوجود تیل کی ٹریڈنگ کا انکشاف کرنا وفاقی اداروں کے کردار پر سوال ہے بی این پی عوامی نے ہمیشہ باعزت روزگار کی بات کی ہے اور مکران چونکہ انٹرنیشنل بارڈر پر واقع ایک خطہ ہے اس لیے بی این پی عوامی کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ یہاں کہ لوگوں کو بارڈر پر روزگار کا حق دیا جائے کیونکہ یہاں روزگار کے دوسرے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں پہلے زمانے میں مکران کے لوگوں کا گزر بسر دبئی اور مسقط میں ملازمت کی صورت میں ہوتا تھا لوگوں کی اکثریت ملازمت کی خاطر خلیج کا رخ کرتی تھی مگر آج کے دور میں خلیج میں تمام روزگار کے ذرائع بند ہوئے ہیں اور دیگر صوبوں میں ہر جگہ فیکٹری و کارخانے لگے ہوئے ہیں بڑی بڑی کمپنیاں وہاں کام کر رہی ہیں اس لیے وہاں کو روزگار آسانی سے مل سکتا ہے مگر بلوچستان میں نا فیکٹری ہے اور نا کارخانے لگے ہوئے ہیں اس لیے لوگ مجبور ہوکر بارڈر کا رخ کر رہے ہیں جہاں تک بارڈر پر کاروبار کا معاملہ ہے اس خطے کے لوگ سیکٹروں سال سے ایرانی بلوچستان سے وابستہ رہے ہیں اور لوگوں کی ایرانی اور پاکستانی بلوچستان سے رشتہ داریاں ہیں آج سے سیکنڑوں سال پہلے یہاں آنے اور جانے پر پابندیاں نہیں تھی اس دور میں لوگ اونٹ کے ذریعے کاروبار کرتے تھے آج سرحد کی یہ لکیر لوگوں سے روزگار چھیننے کے چکر میں ہے یہاں پر کاروبار کرنا لوگوں کا حق ہے کیونکہ صدیوں سے لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں مگر وفاق کی ناقص پالیسیوں سے بارڈر کو بلوچ کیلئے مکمل طور پر بند کرنے کی بو آرہی ہے وفاق اور متعلقہ اداروں کے رویے سے یہ بات ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بارڈر کو بند کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں جس کے بہت ہی بھیانت ناک نتائج نکلیں گے بارڈر کو بند کرنے سے بہت بڑا انشتار پیدا ہوگا جس کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا آج کے بارڈر کے اس کام میں لوگوں کی زندگی داو¿ پر ہے کبھی ایرانی فورس حملہ کرتی ہے اور کبھی پاکستانی فورس کی فائرنگ کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے یہاں کام کرنا مشکل ہے بی این پی عوامی نے ہمیشہ بارڈر کے متعلق واضح پالیسی کا مطالبہ کیا ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے کبھی اس کام کو جعلی کام قرار دیا جاتا ہے کبھی اسے غلط کا نام دیا جاتا ہے مگر اس کے متعلق واضح پالیسی نہیں بنائی جاتی جو یہاں کے لوگوں کے ساتھ بڑی زیادتی یہاں کے لوگ بارڈر پر ہوتے ہوئے بارڈر ٹریڈ کرنے سے محروم ہیں اور واضح پالیسی نہ ہونے کی صورت میں بارڈر کا کاروبار چند مافیاز کے ہاتھوں میں ہے اور کچھ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی میں چند لوگ دن دہاڑے بھتہ خوری میں مصروف ہیں جن پر بی این پی عوامی کبھی خاموش نہیں رہے گی بی این پی عوامی وفاقی اداروں کے اس الزام تراشی کو سختی سے مسترد کرتی ہے اور اس کے متعلق قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

متعلقہ خبریں