سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ غیر آئینی ہے، جسٹس عائشہ ملک


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 بنانے کا اختیار نہیں ہے، یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس سے متعلق ایک نوٹ میں جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 191 کے مطابق صرف سپریم کورٹ کو قوانین بنانے کا اختیار ہے، یہ اختیار عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
گزشتہ سال سپریم کورٹ کے 15 ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے منقسم فیصلہ سنایا تھا، جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے معاملات کو منظم کرنے کے لیے پی ڈی ایم اتحاد کی طرف سے بنائے گئے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے متعلق ایک شرط عائد کی تھی، جس کے تحت کیے گئے فیصلوں کے خلاف کوئی بھی اپیل صرف مستقبل کے مقدمات پر لاگو ہوگی نہ کہ ان فیصلوں پر جو قانون کی منظوری سے پہلے کیے گئے تھے۔
اب 32 صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس عائشہ ملک نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور عدلیہ کے کام کرنے اور آزاد رہنے کے حوالے سے معاملات عوام کے لیے اہم ہیں، عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک لوگوں کی رسائی سے متعلق مسائل ہمیشہ ہر ایک کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے بنیادی سوال کا ابھی تک جواب نہیں دیا گیا کہ سیکشن 5 کے تحت اپیل کے حق کا کیا ہوگا، جب تمام جج آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی درخواست پر غور کرنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت دیا گیا اپیل کا حق غیر ضروری ہو جاتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر فل کورٹ کیس کی سماعت کرتی ہے اور ایکٹ کے تحت اگر ایک فریق کو اپیل کرنے کا اختیار ہے تو وہ اس اختیار کو مزید استعمال نہیں کر سکے گا، جسٹس ملک نے وضاحت کی کہ اپیل کا حق ایک بنیادی حق ہے جو قانون سازوں کی طرف سے آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی درخواست سے نمٹنے والے فریق کو حل پیش کرنے کے لیے دیا گیا ہے، جہاں کیا گیا فیصلہ حتمی ہو جاتا ہے۔
جسٹس ملک نے کہا کہ آئین نے اپیل کا حق دیا ہے جس سے سپریم کورٹ کسی فریق کو محروم نہیں کر سکتی، انہوں نے کہا کہ ایسا کر کے قانون سازوں نے سپریم کورٹ کے بنیادی کردار میں مداخلت کی جو عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اسی طرح جسٹس شاہد وحید نے اپنے نوٹ میں عدالتوں کی آزادی اور خودمختاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اندرون و بیرون ہر قسم کی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خودمختاری کسی سمجھوتے کا معاملہ نہیں ہے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کی روح اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا نے مزید کہا کہ انصاف کی فراہمی کا نظام قانون کی حکمرانی کی بنیاد ہے، آزاد اور موثر عدالتی نظام کی عدم موجودگی میں ملک میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، لہٰذا آرٹیکل 175(3) کے تحت یہ لازمی ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کی آزادانہ اور مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کو مجروح کرتا ہے، جو کہ آئین کے تحفظ کے لیے ضروری ہے, لہٰذا اس کی بنیاد پر ایکٹ برقرار نہیں رہ سکتا۔