9 مئی کو آزاد کشمیر میں حالات کیسے بے قابو ہوئے ؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آزاد کشمیر کے شہر ڈڈیال میں ‎9 مئی کے حوالے سے نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے دوران آنسو گیس کی شیلنگ سے ایک ہائی اسکول کی کم از کم 22 طالبات بے ہوش ہو گئیں جب کہ اسسٹنٹ کمشنر سمیت 12 پولیس اہلکار بری طرح زخمی ہو گئے۔
‎مظفرآباد میں اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ آزاد کشمیر کیے شہر ڈڈیال میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے دوران پولیس کی جانب سے پھینکے گئی آنسو گیس سے کم از کم 22 طالبات بے ہوش ہو گئیں اور بعض کو سانس لینے میں شدید دشواری پیش آئی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں فوری طور پر ڈسٹرکٹ اسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔
‎آزاد کشمیر کے سنیئر وزیر کرنل ریٹائرڈ وقار احمد نور نے وزیر بلدیات فیصل راٹھور کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی شر پسند نے جان بوجھ کر آنسوؤں گیس کا گولہ سکول میں پھینکا ہے، وقار احمد نور نے اس بات کی وضاحت نہیں دی کہ پولیس کے علاوہ اور کون آنسو گیس استعمال کر سکتا ہے۔
‎مقامی صحافی شاہد چوہدری کے مطابق پولیس مظاہرین کا تعاقب کر رہی تھی جنہیں ایک گلی کی طرف دھکیل دیا گیا جہاں اسکول واقع ہے۔ مظاہرین صبح سویرے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے تاجروں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے جن میں سے ایک اسکول پر لگا جس سے طالبات بے ہوش ہوگئیں۔
‎اس سے پہلے صبح پولیس نے تقریباً 2 درجن تاجروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا تھا تاکہ جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی طرف سے سستی بجلی سمیت مختلف مطالبات کے حق میں احتجاج کو روکا جا سکے۔
‎ کمیٹی نے 11 مئی سے احتجاجی مظاہروں، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی تھی لیکن بعد ازاں اس میں تبدیلی کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ 10 مئی رات 12 بجے سے یہ احتجاج شروع کیا جائے گا۔کمیٹی کے ایک اہم ممبر شوکت نواز میر نے کہا ہے کہ یہ احتجاج غیر مہینہ مدت تک جاری رہے گا۔
‎عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈڈیال میں صورت حال اس وقت بگڑی جب یہ افواہ پھیلی کہ لڑکیوں کے اسکول میں آنسو گیس کا گولہ گرنے کے باعث ایک طالبہ کی موت ہو گئی ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔اس سے مقامی لوگوں میں غم و غصہ لہر دوڑ گئی۔
ایک عینی شائد نے بتایاکہ اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ اس لیے ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر نے ایک شہری کو تھپڑ مارا اس کے بعد ان کی گاڑی کو سڑک پر الٹا دیا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی۔ اس کے بعد پولیس اور مقامی لوگوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 12 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
‎عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بے ہوش اسکول کی طالبات کو پرائیویٹ وین میں اسپتال منتقل کیا گیا کیونکہ ان کے لیے ایمبولینسز دستیاب نہیں تھیں جب کہ زخمی پولیس اہلکاروں کو ایمبولینسز میں لے جایا گیا۔
‎حکام کا کہنا ہے کہ طویل کشیدگی کے باوجود صورتحال اب قابو میں ہے۔ ‎اس دوران آزاد کشمیر کی حکومت نے ایک سرکاری اعلان میں کہا ہے کہ جمعہ اور ہفتے کو تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کو روکنے کے لیے آزاد کشمیر بھر میں 42 افراد کو حراست میں لیا ہے اور مزید گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔