آزاد کشمیر حکومت اور عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آزاد کشمیر کے حکام اور جموں وکشمیر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہزاروں احتجاجی مظاہرین اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے اسمبلی کی عمارت کے سامنے احتجاج کی غرض سے مظفر آباد کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔
‎ اتوار کی رات آزاد کشمیر کے جنوبی ضلع کے شہر راولاکوٹ میں 4 گھنٹے تک جاری رہنےوالے ان مذاکرات میں وزیر اعظم انوار الحق، سینئر ترین وزیر کرنل وقار نور، چیف سیکریٹری اور جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان شامل تھے، چیف سیکریٹری راولاکوٹ میں موجود تھے جبکہ وزیراعظم اور سینئر ترین وزیر اور پاکستانی حکام اسلام آباد سے بذریعہ زوم شریک ہوئے۔
‎ بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے ختم ہونے والے ان مذاکرات کے دوران جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن عمر نذیر نے تین اہم مطالبات پر زور دیا؛ پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی، 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1000 روپے، اور عدالتی احکامات کے مطابق سیاسی اشرافیہ کی مراعات میں کمی۔
عمر نذیر انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں حکام اور عوامی نمائندوں کو 1300 سی سی کاریں استعمال کرنی چاہییں۔، ان کے مطابق حکومت نے آٹے پر سبسڈی میں 1000 روپے اضافے پر اتفاق کیاجس کے بعد 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2000 ہزار روپے ہوگی۔
لیکن عمر ںذیر کے مطابق حکومتی ارکان مراعات میں کمی اور بجلی کے نرخوں کو پیداواری لاگت تک کم کرنے کے ضمن میں کسی وعدے سے ہچکچا رہے تھے، بجلی کی نرخوں کے بارے میں حکام کا موقف تھا کہ انہیں حکومت پاکستان کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

’ہم ایک سال سے احتجاج کر رہے تھے اور حکومت آزاد کشمیر کے پاس مسئلہ حل کرنے کے لیے کافی وقت تھا لیکن حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، لہذا اب انہیں مزید وقت نہیں دیا جاسکتا، حکومتِ کشمیر عوام کو ریلیف دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی اور اپنی مراعات پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔‘
‎ڈپٹی کمشنر سردار وحید خان نے بتایا کہ حکومت نے ایکشن کمیٹی کو آٹے پر سبسڈی میں 1000 روپے اضافے اور بجلی کے بلوں میں 30 فیصد کمی کی پیشکش کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ مراعات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں جو وزراء اور ارکان اسمبلی اور افسروں کی مراعات کا جائزہ لے کر فیصلے کریں گی۔
‎ایکشن کمیٹی کے ایک اور رکن شوکت نواز میر کے مطابق اگرانہیں بجلی، آٹے کی سبسڈی اور اشرافیہ کی مراعات کے حوالے سے نوٹیفیکیشن مل جاتے تووہ اپنی احتجاجی کال پر دوبارہ غور کرنے کے لیے تیار تھے، تاہم جب ان مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو وہ ڈٹے رہے اور واضح کیا کہ جزوی حل ناقابل قبول ہیں۔
’اگر ہمارے مطالبات مانے گئے تو ہم مظفرآباد جانے سے قبل رات بھر دھیرکوٹ میں قیام کریں گے، حکام بات چیت کریں، نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے لیے کافی وقت ہے، یہ نوٹیفکیشن مظفرآباد میں بھی لے سکتے ہیں، ہمارا مقصد تصادم نہیں بلکہ عوام کی شکایات کا ازالہ ہے۔‘
‎ شوکت نواز میر نے بتایا کہ آٹے کی سبسڈی کے حوالے سے ایک امید افزا پیشکش کی گئی ہے، تاہم انہوں نے اس وقت مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔
‎اتوار کے روز مظاہرین کی بڑی تعداد آزاد کشمیر کے دیگر اضلاع سے راولاکوٹ پہنچی اور وہاں جموں و کشمیر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد مظاہرین رات کو ہی مظفرآباد کی طرف روانہ ہو گئے انہوں نے رات مظفرآباد سے 58 کلو میٹر کے فاصلے پر دھیر کوٹ میں قیام کیا۔
مظاہرین کی جانب سے مظفرآباد پیش قدمی کے پیش نظر حکومتِ آزاد کشمیر نے دارالحکومت مظفرآباد سے 35 کلومیٹر پہلے کوہالہ کے مقام پر رینجرز اور آزاد کشمیر پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کر دیا ہے تاکہ مظاہرین کو مظفرآباد میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔