دوران سماعت عدالت نے اینٹی کرپشن پنجاب کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی ٹیم گرفتاری کے لیے آئی تھی؟ اینٹی کرپشن حکام نے جواب دیا کہ 21 مئی 2022 کو ہم گرفتاری کے لیے آئے تھے، ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہم نے شیریں مزاری کو نوٹس بھی کیا تھا . گرفتاری سے پہلے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا، تھانہ کوہسار کی پولیس ہمارے ساتھ تھی . ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اینٹی کریشن حکام کو چاہیے تھا کہ گرفتاری کے بعد انہیں مجسٹریٹ کے پاس لے کر جاتے . جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے جب کسی کی گرفتاری غلط ڈیکلئیر ہو جائے تو اس دوران جو ہوا اس کی حیثیت کیا ہوگی؟ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں اسلام آباد سے ہمارے دائرہ اختیار کے اندر گرفتاری درست ہوئی یا نہیں، اگر کسی دوسرے صوبے سے گرفتاری چاہیے ہوگی تو کیا باہر سے کوئی آکر اٹھا کر لے جائے گا؟ ایسے منہ اٹھا کر کوئی دوسرے صوبے میں جا کر کیسے گرفتار کر سکتا ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہوا یہاں کورٹ سے ایک آدمی اٹھا کر لے گئے، دروازے توڑ کے، چیزیں توڑ کے لے گئے، کیا ایسے ہی گرفتاری ہوئی تھی؟ پھر وہ گرفتاری سپریم کورٹ کے غیر قانونی قرار دے دی تھی . جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو آج ہو رہا ہے، 2 سال بعد دوسرے والوں کے ساتھ ہو رہا ہو گا اور ہم یہیں بیٹھیں ہوں گے، وقت وقت کی بات ہے، یہ سائیکل ہے، کل ادھر والے دوسری طرف کھڑے ہوں گے، آج جو حکومت میں ہیں، کل وقت بدلے گا تو وہ اٹھائے گئے ہوں گے . اصل بات یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کو غلط کام کو نا کرنا آنا چاہیے . اِن کو تحفظ اسی لیے دیا ہوتا ہے کہ وہ غلط کام سے انکار کر سکیں . ان کا مزید کہنا تھا کہ کل ان کو بھی بچانے کوئی نہیں آئے گا اور یہ حالات کا سامنا کریں گے، انہوں نے تو جو کرنا تھا وہ کر لیا، ہراسگی کرلی میڈل بھی لے لیے، یہ جو اس عدالت کے اندر ہوا ہم تو اس کی انکوائری نہیں کر سکے . اس موقع پر وکیل فیصل چوہدری نے کہا یہاں ہائی کورٹ کا تو پرچہ بھی درج نہیں ہوا . جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے شیریں مزاری کمیشن نے ایکشن کی سفارش کی ہوئی ہے کمیشن ریورٹ اور عدالت کے فیصلے کے تناظر میں ہم نے آگے چلنا ہے . بعد ازاں عدالت نے شیریں مزاری کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا . واضح رہے کہ 21 مئی 2022 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد سے ’گرفتار‘ کرلیا گیا تھا . اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے تصدیق کی تھی کہ شیریں مزاری کو حراست میں لیا گیا ہے . سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں بیان میں شیریں مزاری کی بیٹی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا تھا کہ ’مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا اور اپنے ساتھ لے گئے، مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں لاہور کا اینٹی کرپشن ونگ اپنے ہمراہ لے کر گیا ہے‘ . اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ’ڈاکٹر شیریں مزاری کو قانون کے مطابق اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا، کسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں‘ . بعد ازاں 17 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2022 میں اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے سابق وفاقی وزیر شیری مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے .
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی 2022 میں اسلام آباد سے ہونے والی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت وکیل درخواست گزار فیصل چوہدری اور ایمان مزاری عدالت میں پیش ہوئے، اس کے علاوہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُوگل بھی عدالت میں پیش ہوئے .
متعلقہ خبریں