لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) شاعر فرہاد لاپتا کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے، وہی لوگ مسنگ ہیں جو لاپتا افراد پر زیادہ بات کرتے ہیں، لاپتا افراد پر بات کرنے کی وجہ سے شاعر کو اٹھا لیا گیا، باعث شرم بات ہے ہم سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے روبرو سماعت ہوئی۔ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر، احمد فرہاد کی اہلیہ کے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ دو روز قبل احمد فرہاد اسلام آباد گھر سے لاپتا ہوگئے، سرکاری وکیل نے کہا کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے کوشش جاری ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے کہا کہ میں لاپتا فرد کی اہلیہ سے ملا ہو جہاں تک مجھے پتا چلا ہے گھر کے باہر سے ان کو اٹھایا گیا، گاڑی کے نمبر رات ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھے جارہے، گاڑیوں کے نمبر ٹریس کرنے کے لیے ابھی بھی ایف آئی اے میں کام جاری ہے، ملک بھر کے تمام آئی جیز کو ہم نے خط لکھا ہے، تمام خفیہ اداروں کو بھی خطوط لکھے ہیں، جیوفنسنگ ہم نے کرلی ہے کچھ وقت اس میں لگے گا، سی ڈی آر اور جیو فنسنگ پر کام ابھی ہونا ہے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ خفیہ ادارے کے حوالے سے ہم نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی سے کہا کہ کیا آپ جب ان اداروں کو خط لکھتے ہیں تو کیا کوئی جواب کبھی آتا ہے؟ ایس ایس پی نے صاف الفاظ میں کہا کہ کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ان کا پورا اعتماد پولیس پر ہے پولیس سے گلہ یہ ہے کہ ایک خاص حد کے بعد پولیس کی تحقیقات آگے نہیں بڑھتی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ جو لوگ اٹھائے جاتے ہیں واپس آتے ہیں کہتے ہیں کاغان گیا ہوا تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نامعلوم افراد کے پاس ایسی صلاحیت تو ہے کہ 24 گھنٹے میں وہ سبق یاد کراسکیں، لاپتا افراد پر بات کرنے کی وجہ سے شاعر کو اٹھا لیا گیا، باعث شرم بات ہے ہم سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے، جو غریب اٹھایا جاتا ہے مہینوں سالوں بعد واپس آتا ہے تو اس کی فیملی کہتی ہے کچھ نہ بولنا اب۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں قانون سازی ہونی چاہیے لاپتا افراد کے معاملے میں سزائے موت ہونی چاہیے، امید تو ہے کہ ہم کہیں کہ ایسا کوئی قانون بنے گا کہ لاپتا افراد ایکٹ بنے گا، وہی لوگ مسنگ ہیں جو زیادہ بات کرتے ہیں ان میں صحافی بھی ہیں، سیاسی ایکٹوسٹ کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے کہاں ہے وزارت اطلاعات؟ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مجھ سمیت ہر آدمی قابل احتساب ہے، اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعظم کو بھی بلاؤں گا، اگر یہ اغوا کاروں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تو گھر جائیں گے، میں نے آئی جی کو بتایا تھا کہ اگر کوئی لاپتا ہوگا تو ذمہ داری ان پر ہوگی اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا لا اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیز کو خط لکھنے سے معاملہ حل ہو جائے گا؟ سارا دن ٹوئٹر اور ٹک ٹاک پر لوگوں کی عزتیں اچھال رہے ہیں، اگر بندہ بازیاب نہ ہوا تو سب کے خلاف کارروائی کے لئے لکھوں گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکرٹری داخلہ سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرلی اور حکم دیا کہ وزارت دفاع کا آفیسر آئندہ سماعت پر پیش ہو۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔