ان کے لواحقین تین روز تک سراپا احتجاج رہیں، ریاست نے مختلف ہتھکنڈے استعمال میں لاکر دھرنے کو سبوتاژ کروایا، جھوٹا دلاسہ دیکر تین دن کے اندر اندر انہیں بازیاب کرانے کا کہہ کر دھرنا ختم کرایا گیا لیکن اب تک وہ بازیاب نہیں ہوسکے . بلکہ جبری گمشدگیوں کا تسلسل بدستور جاری رہا ہے . جمعرات 15 مئی کو مشکے گورجک میں مختلف گھروں پر چھاپے مار کر محبوب ولد یار جان، امجد ولد دین محمد، علی ولد دین محمد، تاج محمد ولد ابراہیم، بلوچ ولد دلمراد، اور عبداللہ ولد عبدلقادر کو جبراً لاپتا کیا گیا . بعد میں جب انکے لواحقین نے احتجاج کیا تو پانچ افراد بازیاب کیے گئے، البتہ عبداللہ ولد عبدلقادر ابھی تک لاپتہ ہے . عبداللہ ولد عبدالقادر حافظ قرآن ہے . وہ بطور ایک استاد بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں اور علاقے کے پیش امام ہیں . بلوچ یکجہتی کمیٹی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت تمام طبقہ ہائے فکر کے افراد سے درخواست کرتی ہے کہ مشکے سمیت پورے بلوچستان میں جاری زیادتیوں کیخلاف آواز بلند کریں جبکہ عالمی معاشرہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایسے غیر انسانی عمل کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک مہینے سے مشکے اور گردونواح کے علاقوں مشکے، نلی چھاونی، تنک، ملش بند اور بنڈکی کے لوگ کیمپوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں، جہاں گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں کی تذلیل کی جاتی ہے، مردوں کو اٹھا کر جھوٹے الزامات کی بنا پر بند کردیتے ہیں، غریب عوام جو پہاڑی علاقوں میں رہے ہیں انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، صبح سات بجے سے رات آٹھ بجے تک بلا معاوضہ مزدوری کرواتے ہیں . 2 اپریل کو مشکے تنک سے تین بلوچ جوان لڑکے اٹھائغ گئے تھے جو تاحال لاپتہ ہیں .
متعلقہ خبریں