ایرانی صدر کے جاں بحق ہونے پر پاکستان کا ایک روزہ سوگ کا اعلان
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے جاں بحق ہونے پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔
صدر مملک آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیا۔
صدر مملکت نے ایرانی صدر، وزیر خارجہ اور حادثے میں جاں بحق دیگر افراد کے سوگواران سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مسلم امہ کے لیے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی امت مسلمہ کے اتحاد کے بڑے حامی تھے ، عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا، ایرانی صدر فلسطینی اور کشمیری عوام سمیت عالمی سطح پر مسلمانوں کے درد کو دل سے محسوس کرتے، آج پاکستان ایک عظیم دوست کو کھو دینے پر سوگوار ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پچھلے ماہ ہمیں پاکستان میں ان کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا، ہماری گفتگو کے دوران میں نے انہیں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پر عزم پایا، رئیسی ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کو خاص مقام دیتے تھے ، صدر رئیسی کا انتقال نہ صرف ایران بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
آصف زرداری نے بتایا کہ صدر رئیسی کو علاقائی اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوششوں پر ایران، پاکستان اور عالم اسلام میں یاد رکھا جائے گا، اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے، اللہ تعالٰی ناقابل تلافی نقصان کی اس گھڑی میں ان کے اہل خانہ اور ایران کے عوام کو صبر و استقامت عطا فرمائے۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے ابراہیم رئیسی کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہیلی کاپٹرکریشن ہونے کے واقعے کو بےچینی سے دیکھ رہے تھے، ہمیں اچھی خبر کی امید تھی تاہم افسوس ایسا نہیں ہوا، صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے اچھے دوست تھے، وزیراعظم شہباز شریف
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے اس بڑے نقصان پر ایرانی عوام کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، پاکستان کا قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے افسوسناک واقعہ پر ایرانی حکومت اور عوام سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کی، ان کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت پر دلی رنج اور صدمہ ہوا، ہم ایرانی حکومت اور عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں، پاکستانی حکومت اور عوام دکھ کے وقت ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے واقعہ پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس افسوسناک واقعے پر ہر پاکستانی غمزدہ ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایرانی صدرا براہیم رئیسی اور ان کے رفقا کی وفاقت پر سوگوار خاندانوں اور ایرانی عوام سے اظہار ہمدردی و تعزیت کی، ان کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت ایران کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے، ایران کے عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔
بعد ازاں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی حجم قابل قبول نہیں ہے، ہم نے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بعد ازاں کراچی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاوقل بھٹو سے ملاقات کے دوران ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران تعلقات خراب نہیں کر سکتی۔
حادثہ کب پیش آیا؟
واضح رہے کہ 19 مئی کی شام ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ملک کے علاقے آذربائیجان کے پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیا تھا۔
ایرانی صدر مشرقی آذربائیجان میں ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس تبریز شہر کی طرف جارہے تھے، مقامی میڈیا کے مطابق وہ ایران اور آذربائیجان کے سرحدی علاقے سے واپس لوٹ رہے تھے۔
ہیلی کاپٹر میں کُل 9 افراد سوار تھے جن میں وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، مشرقی آذربائیجان کےگورنر ملک رحمتی اور صوبے میں ایرانی صدر کے نمائندے آیت اللہ محمد علی شامل ہیں۔
ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ مزید دو ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے، اس میں سے ایک ہیلی کاپٹر کو ملک کے شمال میں دھند کے باعث ’ہارڈ لینڈنگ‘ کرنا پڑی۔
ابراہیم رئیسی کون ہیں؟
63 سالہ ابراہیم رئیسی 2021 سے ایرانی صدر کے منصب پر فائز تھے۔
ابراہیم رئیسی 1960 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور صرف صرف 20 سال کی عمر میں انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔
انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔
انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔
انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔
تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔
غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔
اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔