کوئٹہ پریس کلب میں پولیس کی غنڈہ گردی ایک آمرانہ سوچ ہے، اسد اللہ بلوچ


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان اسمبلی اجلاس میں رکن اسمبلی میر اسد اللہ بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہ قدرتی گیس بلوچستان کے علاقے سوئی میں 1952 میں دریافت ہوئی ۔ اور 1955 میں اس کی ترسیل ملک کے دیگرصوبوں کو شروع ہوئی۔ اور اس وقت بلوچستان سے قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار56 فیصد تھی جس سے پورا ملک استفادہ کر رہا تھا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قدرتی گیس بلوچستان سے دریافت ہوئے ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک بلوچستان کے 36 اضلاع میں سے صرف چند اضلاع کو قدرتی گیس کی سہولت میسر ہے جبکہ صوبہ کے دیگر اضلاع کے لوگ اب تک قدرتی گیس جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ مزید یہ کہ جن علاقوں کو قدرتی گیس کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہاں بھی کم پریشر اور غیر اعلامیہ لوڈشیڈنگ کے باعث ان علاقوں کے لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت جس صوبے میں قدرتی گیس کے ذخائر واقعہ ہوں ان ذخائر سے ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں اس صوبے کو پاکستان کے دیگر حصوں پر ترجیح حاصل ہوگی لیکن بدقسمتی سے قدرتی گیس ملک کے دیگر صوبوں کے کونے کونے تک پہنچادی گئی ہے۔ لیکن بلوچستان کے تمام اضلاع کو تاحال قدرتی گیس کی سہولت سے محروم رکھ کر آرٹیکل 158 کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ دوسری جانب اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل (3) 172 کے تحت موجودہ پابندیوں اور فرائض کے مطابق معدنی تیل اور قدرتی گیس یا علاقائی سمندر سے ملحق ہوں وہ اس صوبے اور وفاقی حکومت کو مشترکہ اور مساوی طور پر تفویض کر دیے جائیں گے لیکن اس حقیقت کے باوجود بلوچستان کے صرف دو فیصد لوگ قدرتی گیس استعمال کررہے ہیں جبکہ باقی صوبے کے تمام لوگ قدرتی گیس جیسی نعمت کی سہولت سے محروم ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ مزید برآں سندھ اور بلوچستان قدرتی وسائل کے لحاظ سے امیر صوبے ہیں۔ لیکن یہاں کے لوگ قدرتی گیس کے حصول کی بابت بہتر معیار زندگی برقرار رکھنے سے محروم ہیں۔ لہٰذا بلوچستان کے عوام کی مشکلات کومد نظر رکھ کر یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کے وہ تمام اضلاع جن میں قدرتی گیس کی سہولت میسر نہیں وہاں پر فی الفور LPG پلانٹ لگانے کو یقینی بنائے تا کہ بلوچستان کے غریب عوام کو قدرتی گیس سے متعلق در پیش مشکلات کا از الہ ممکن بنایا جاسکے۔ انہوں نے اسمبلی اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ یہ جو واقعہ کوئٹہ پریس کلب کی تالہ بندی کا ہوا ہے انتہائی افسوسناک ہے، پریس کلب اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کی جگہ ہے۔ پولیس گردی یا آمرانہ سوچ، مارشل لا کے زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا، ایوب کے دور میں، مشرف کے زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا، تقریر کرنے کی اجازت ہمیں آئین دیتا ہے، جب ہم اپنی آواز ایک جمہوری طریقے سے نہیں اٹھا سکتے تو کیا کریں، یہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہ 73 کے آئین کی خالق جماعت سمجھتے ہیں ان کی حکومت میں یہ کیا ہورہا ہے۔ کوئٹہ پریس کلب میں پولیس کی غنڈہ گردی ایک آمرانہ سوچ ہے۔ کل کو یہ یونیورسٹی کو بھی تالہ لگائیں گے، بولان میڈیکل کالج کو بھی تالہ لگائیں گے، اسمبلی کا بھی گھیراﺅ کریں گے، اور جو یہاں حق کی بات کرتا ہے اسے پکڑ کر گرفتار کریں گے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ واقعہ پریس کلب کیساتھ نہیں ہوا جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں یہ ان کے ساتھ ہوا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ آئی جی پولیس صحافیوں کو تحفظ دیں اور ان کو بھی جو اپنے حق کی بات کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی تحفظ دیں۔ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد کوئٹہ پریس کلب کی تالہ بندی کیخلاف میر اسد بلوچ اسمبلی اجلاس سے واک آﺅٹ کرکے چلے گئے۔