بلوچستان میں عید الاضحیٰ سے قبل کانگو وائرس کیوں پھیلتا ہے؟
بلوچستان (قدرت روزنامہ)عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے اور ایسے میں ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج چکی ہیں جن میں قربانی کے لیے بکرے، دنبے، بیل اور اونٹ لائے گئے ہیں جو خریداروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ اگر بات ہو بلوچستان کی تو یہاں بھی عید الاضحیٰ کے لیے جانور تیار ہوچکے ہیں جنہیں بیوپاری منڈیوں میں کے آئے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ عید قربان سے قبل صوبے میں جان لیوا کانگو وائرس پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ رواں برس کانگو وائرس کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا جو خوش آئند ہے لیکن محکمہ صحت ذرائع کے مطابق گزشتہ برس بلوچستان میں کانگو وائرس سے متاثرہ 200 سے زائد کیسز اسپتال میں لائے گئے جن میں 73 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ ایک ڈاکٹر سمیت 10 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عید قربان سے قبل بلوچستان میں کانگو وائرس کے کیسز کیوں سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں۔
اس معاملے پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق انچارج آئیسولیشن سیل ڈاکٹر صادق بلوچ نے بتایا کہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں سب سے زیادہ کانگو وائرس کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں کانگو کیسز زیادہ کیوں ہوتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ دراصل عید قربان سے قبل بلوچستان میں ہمسایہ ملک افغانستان سے بڑے پیمانے پر مویشی لائے جاتے ہیں اور وہ بھی پہلے روس کے بعد براستہ افغانستان یہاں بلوچستان لائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صادق بلوچ نے کہا کہ سرحد پر ان جانوروں کا مکمل جانچ پڑتال اور طبی معائنہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے یہ جانور مویشی منڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں ایسے میں بیوپاری اور خریدار دونوں کو کانگو وائرس ہونے کا خطر رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کانگو وائرس پر تدارک پانا آسان ہے محکمہ لائیو اسٹاک کی جانب سے جانوروں پر اسپرے کیا جاتا ہے جس سے جانوروں پر پائے جانے والا چچڑ جس سے کانگو پھلتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے محکمہ لائیو اسٹاک اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کرتا اور تمام جانوروں پر اسپرے نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کانگو کے کیسز سامنے آتے ہیں۔
کانگو وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟
اقوام متحدہ کا عالمی ادارے برائے صحت ڈبیلو ایچ اور کے مطابق کانگو وائرس جس کو کریمین کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف) کہا جاتا ہے۔ ایک وائرل بخار کی قسم ہے جو عام طور پر چچڑوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
جانوروں کے ذبح کرنے کے دوران اور فوری طور پر اس کا وائرس جانوروں کے بافت(جانوروں کے ٹشو جہاں سے وائرس خون میں داخل ہوا ہے) سے رابطے کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ کانگو وائرس پھیلنا صحت عامہ کی خدمات کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ وائرس وبائی امراض کا باعث بن سکتا ہے جس میں اموات کا تناسب 10 سے 40 فیصد تک ہوتا ہے۔
ممکنہ طور پر اسپتال اور صحت کی سہولیات کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے اور اس کی روک تھام اور علاج مشکل ہے۔ کانگو وائرس افریقا، بلقان، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں مقامی ہے۔ یہ بیماری پہلی بار سنہ 1944 میں جزیرہ نما کریمین میں بیان کی گئی تھی اور اسے کریمین ہیمرجک فیور کا نام دیا گیا تھا۔
سنہ 1969 میں یہ تسلیم کیا گیا کہ کریمین ہیمرجک بخار کا سبب بننے والا پیتھوجین وہی تھا جو سنہ 1956 میں کانگو بیسن میں شناخت کی گئی بیماری کا ذمہ دار تھا۔ 2 جگہوں کے ناموں کے ربط کے نتیجے میں بیماری اور وائرس کا موجودہ نام نکلا۔