افریقہ میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات، اقوام متحدہ کے چونکا دینے والے اعداد و شمار


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)یورپ، امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت افریقی ممالک میں خواتین میں دوران حمل و زچگی اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے یو این ایف پی اے کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی دوران زچگی نصف سے زیادہ اموات ایسے ممالک میں ہوتی ہیں جو بحرانوں یا آفات کا شکار ہیں، افریقی ممالک میں یورپ اور امریکا کی نسبت دوران زچگی اموات کی شرح 130 گنا زیادہ ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ میں نسل پرستی، جنسی تعصب اور دیگر طرح کی تفریق جنسی و تولیدی صحت کے مسائل کے حل میں رکاوٹ ہیں، اگر غربت کا شکار خواتین اور لڑکیوں کا تعلق اقلیتی گروہوں سے ہو یا وہ جنگ زدہ علاقوں میں رہتی ہوں تو مناسب طبی نگہداشت کی عدم موجودگی میں ان کی قبل ازوقت موت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خواتین کی جنسی و تولیدی صحت کے شعبوں میں پیشرفت سست رو ہے، دنیا کی ایک چوتھائی خواتین اپنے ساتھی کو جنسی عمل سے انکار نہیں کر سکتیں، تقریباً 10 فیصد خواتین کو مانع حمل ذرائع استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے جبکہ روزانہ 800 خواتین دوران زچگی انتقال کر جاتی ہیں، 2016 سے اب تک ان اعدادوشمار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق انسانی بحران اور مسلح تنازعات والے ممالک میں دوران زچگی روزانہ تقریباً 500 خواتین کی موت ہوجاتی ہے۔
یو این ایف پی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ دنیا نے خواتین کو دوران حمل و زچگی بچانے میں کوئی پیشرفت نہیں کی، حالانکہ ان خواتین کو بچایا جاسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب خواتین کے اپنے جسم پر اختیار کی صورتحال کے بارے میں اعدادوشمار جمع کیے گئے ہیں، جن ممالک میں سے یہ اعداد و شمار لیے گئے ہیں، ان میں سے 40 فیصد میں انتہائی پسماندہ خواتین کا یہ اختیار کمزور ہوا ہے۔

نسلی و طبقاتی عدم مساوات
رپورٹ کے مطابق مانع حمل، زچگی کی محفوظ خدمات، زچگی میں باوقار نگہداشت اور دیگر ضروری خدمات کے معاملے میں شمالی و جنوبی دنیا اور مشرقی و مغربی ممالک کے مابین واضح تفاوت پایا جاتا ہے۔
خوشحال ممالک میں بھی بہت سی جگہوں پر نسلی و طبقاتی بنیادوں پر خواتین کی جنسی و تولیدی صحت کی صورتحال ایک جیسی نہیں ہے، امریکا میں افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین میں دوران زچگی اموات کی شرح سفید فام خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے، امریکا میں یہ شرح قومی اوسط کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مقامی و نسلی اقلیتوں کو بھی حمل اور زچگی میں طبی خطرات کا سامنا دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، مثال کے طور پر یورپ کے ملک البانیہ میں انتہائی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والی 90 فیصد سے زیادہ روما خواتین کو طبی خدمات کے حصول میں سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان کے مقابلے میں البانوی نسل کی خوشحال خواتین کی صرف 5 فیصد خواتین کو ایسے مسائل درپیش ہیں۔

علاوہ ازیں جسمانی معذوری کا شکار خواتین پر صنفی بنیاد پر تشدد کا امکان بھی 10 گنا زیادہ ہوتا ہے، متنوع جنسی رحجانات اور صنفی اظہار کے حامل افراد کو مخصوص طرح کے تشدد کا نشانہ بننے کے خدشات بھی دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں اور انہیں طبی نگہداشت کے حصول میں بھی دوسروں سے کہیں زیادہ رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔
بہتری کے اشاریے
رپورٹ کے مطابق 30 سال قبل پائیدار ترقی کے لیے ترجیحی ہدف بننے کے بعد جنسی و تولیدی صحت کے حوالے سے نمایاں بہتری بھی دیکھنے کو ملی ہے۔
نتالیہ کینم نے رپورٹ کے اجرا پر کہا ہے کہ اب خواتین میں ان چاہے حمل کی شرح میں تقریباً 20 فیصد تک کمی آچکی ہے، اسی طرح دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے، 160 سے زیادہ ممالک میں گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنالیے گئے ہیں۔
سرمایہ کاری کی ضرورت
یو این ایف پی اے کی رپورٹ میں لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے اور خواتین اور لڑکیوں کو اپنے مسائل کے حل کے اختراعی طریقوں سے کام لینے کے لیے مخصوص پروگرام شروع کرنے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں 2030 تک 79 ارب ڈالر خرچ کر کے 400 ملین اَن چاہے حمل روکے جا سکتے ہیں، 10 لاکھ زندگیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے اور اس طرح 660 ارب ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ خواتین کے تولیدی صحت کے حقوق کو تحفظ دینے کی اہلیت کا حصول ایک اور بڑا مسئلہ ہے، درحقیقت یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے تولیدی حقوق کا خود بھی خیال کریں اور اس کے داعی بھی بنیں۔