آزاد کشمیر میں خاتون کو پولیس کے ہاتھوں تشدد اور ہراسگی کیوں جھیلنا پڑی؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آزاد کشمیر کے ایک قبائلی علاقے کی خاتون کو پولیس کی حراست کے دوران مرد پولیس اہلکاروں نے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا اور جنسی طور پر ہراساں کیا . شازمہ کا کہنا ہے کہ انہیں یہ سب اس لیے جھیلنا پڑا کیوں کہ وہ اپنے مرحوم والد کی پراپرٹی اور دادی کی وراثت میں حصے کی خاطر ایک دہائی سے جنگ لڑ رہی ہیں .

شازمہ علیم کا تعلق آزاد کشمیر کے بلوچ علاقے سے ہے جہاں قبائلی معاشرہ ہے اور وہاں مرد ہی اہم فیصلے کرتے ہیں . شازمہ پڑھی لکھی نہیں، ان کی 2 اور بہنیں ہیں . لیکن شازمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ نہ صرف اپنے چچا سے والد کی پراپرٹی واپس لیں گی بلکہ وہ دادا کی وراثت میں اپنا پورا حصہ حاصل کریں گی . لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ جنگ نہ صرف طویل ہوگی بلکہ ان کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا . آزاد کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قانون نافذ ہے اور اس خطے میں قانوں کی ہاتھ اتنے چھوٹے ہیں جو کسی با اثر تک نہیں پہنچ سکتے . شازمہ اڑھائی ماہ کی تھیں جب ان کے والد کی وفات ہوئی ان کی 2 بڑی بہنیں بھی ہیں جن کی عمریں اس وقت 3 سال اور 5 سال تھیں . اس وقت ان کے دادا اور دادی زندہ تھے . ان دونوں کی وفات شازمہ کے والد کی وفات کے کئی برس بعد ہوئی . والد کی وفات کے بعد ہی شازمہ کے لیے مشکلات شروع ہوگئیں تھیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ سی یہ سنا کہ ابھی ان کے والد کی موت کو 40 دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے 4 چچاؤں نے ان کی والدہ کو گھر سے نکال دیا اور وہ اپنی تینوں بیٹیوں کے ہمراہ اپنے بھائی کے گھر چلی گئیں . ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدہ کی موت بلڈ کینسر کے باعث ہوئی . شازمہ کا کہنا ہے کہ ان کو والدہ سے ہی پتا چلا تھا کہ ان کے 2 بڑے چچا نے ان کو الگ الگ شادی کی پیش کش کی جو انہوں نے رد کردی تھی، جس کے بعد ان کو گھر سے نکال دیا گیا تھا . ان کا کہنا ہے کہ ان کی اس پیشکش کا مقصد ہی یہی تھا کہ ان کے والد کے حصے کی زمین اور پراپرٹی پر قبضہ کر سکیں . شازمہ اور ان کی بہنوں کو ماموں نے پالا اور ان کی شادیاں کیں شازمہ کا کہنا ہے کہ دادا کی زندگی میں ہی ان کے چچاؤں نے مکان کی تعمیر کا کام شروع کیا لیکن شازمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے کر ان کے کام کو رکوا دیا . ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا تھا کہ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان کو والد کے حصے کو الگ کیے بغیر یہ مکان تعمیر کیا جارہا تھا . انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہی ان کے دادا نے ان کو 17 مرلے زمین دی تھی مگر ان کی 2 بہنوں کو حصہ نہیں ملا . شازمہ کہتی ہیں یہ زمین ناکافی ہے وہ والد کے حصے کی ساری زمین چاہتی ہیں اور ساتھ ہی والد کی پراپرٹی بھی . شازمہ کے والد بزنس مین تھے جن کا راولپنڈی میں گاڑیوں کا اڈہ اور گھر بھی تھا . شازمہ کا کہنا ہے کہ ان کے چچاؤں نے ان کا اڈہ اور گھر بھی فروخت کردیا ہے . تھانے کا محرر مختلف نمبرز سے کالز اور میسجز کرنے لگا؟ شازمہ کہتی ہیں کہ جب بھی ان کے چچا مکان کی تعمیر کا کام شروع کرتے تو وہ پولیس کے پاس کام رکوانے جاتیں کیوں کہ اس پر ڈپٹی کمشنر نے حکم امتناع جاری کیا تھا . انہوں نے کہا کہ تھانے کے تفتیشی عمران کے پاس ان کا موبائل نمبر تھا اور انہوں نے ان کا نمبر محرر نصیب کو بھی دیدیا . پھر انہیں الگ الگ نمبروں سے کالیں اور میسجز آنا شروع ہو گئے، ابتدا میں معلوم نہیں تھا کہ کالز اور مسیجز کرنے والا کون ہے؟ لیکن بعد میں ان کو پتا چلا کہ وہ تھانے کا محرر نصیب ہے . تھانہ محرر کی وجہ سے طلاق ہوگئی اسی دوران شازمہ کی شادی پلندری سے تعلق رکھنے سکندر نامی شخص سے ہوئی، ان کی شادی کے بعد بھی نصیب ان کو مسیجز کرتا رہا . شازمہ نے کہا کہ وہ انتہائی نازیبا میسجز کرتے تھے اور ان کے شوہر کا نمبر حاصل کرکے ان کو بھی میرے بارے میں غلط باتیں بتائیں جس کی وجہ سے میرے شوہر نے سسر اور میرے دیور کے دباؤ کی وجہ سے مجھے طلاق دی . ایس ایس پی نے تفتیشی عمران اور محرر نصیب کو معطل کردیا شازمہ نے کہا کہ انہوں نے ایس ایس پی سے اس کی شکایت کی تو ایس ایس پی نے تفتیشی عمران اور محرر نصیب کو معطل کر دیا اور تفتیش ڈی ایس پی جبین کوثر کو دے دی . انہوں نے کہا کہ تمام ثبوتوں کے باوجود ڈی ایس پی جبین نے ان کو دوبارہ بحال کردیا . شازمہ نے کہا کہ وہ سینڑل پولیس آفس ( سی پی او) گئیں جہاں ایک افسر نے ان کو اپنا نمبر دیا کہ وہ تمام ثبوت ان کو فراہم کرے . انہوں نے کہا کہ انہوں نے وہ تمام میسجز، نازیبا تصویریں اور وائس میسجز ان کو بھیج دیے . تفتیش کے بعد محرر نصیب کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی انہوں نے کہا کہ 3 دن بعد ان کو سی پی او سے کال آئی کہ وہ سی پی او آفس حاضر ہوں . انہوں نے کہا کہ جب وہ سی پی او گئیں تو وہاں ان کے ملاقات انسپیکٹر جنرل پولیس سے ہوئی جنہوں نے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس کرائم برانج ریاض حیدر بخاری کو تفتیش منتقل کی . انہوں نے کہا کہ تفتیش کے بعد محرر نصیب کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی . آزاد کشمیر پولیس نے 29 مارچ کو اپنے آفیشل فیس بک پیج اے جے کے پولیس پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ درخواست کی روشنی میں معاملہ کی غیر جانب دارانہ چھان بین کے لیے سید ریاض حیدر بخاری اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس کرائم برانچ کو انکوائری تفویض کی گئی ہے . ہیڈ کانسٹیبل کے خلاف پلندری سٹی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا اے آئی جی کرائم برانچ کی انکوائری رپورٹ میں محمد نصیب ہیڈ کانسٹیبل کی جانب سے سائلہ شازمہ کو کیے گئے بعض میسجز اخلاقیات سے ماورا پائے گئے چنانچہ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں محمد نصیب ہیڈ کانسٹیبل کے خلاف پلندری سٹی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا . شازمہ کا کہنا ہے کہ وہ ایف آئی آر کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے تھانے میں رابطہ کرنے کے کوشش کرتیں تو وہاں موجود پولیس افسر ان کی بات نہیں سن رہے تھے . انہوں نے کہا کہ جب بھی وہ کال کرتیں تو وہ یہ بہانہ بنا کر کہ ان کی آواز نہیں آرہی فون بند کردیتے تھے . شازمہ کہتی ہیں کہ وہ دوبارہ سی پی او گئیں اور ان کو بتایا کہ کوئی بھی ان کی بات سننے کو تیار ہی نہیں . انہوں نے کہا ان کی شکایت کے بعد ان کو ڈی ایس پی طارق کا نمبر دیا گیا . ویڈیو کال کی تو ڈی ایس پی برہنہ حالت میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے ڈی ایس پی طارق کو وائس مسیج کیا جس میں انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ محمد نصیب کے خلاف ایف آئی آر کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہیں تو ڈی ایس پی طارق نے دو بار یہی سوال کیا کہ وٹس ایپ پر آپ کی اپنی تصویر لگی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ ان ہی کی تصویر ہے . انہوں نے کہا کہ ڈی ایس پی نے ان کو کہا کہ ویڈیو کال پر آئیں لیکن ابتدا میں انہوں نے معذرت کی لیکن ڈی ایس پی نے کہا کہ ان کو کیا پتا کہ آپ اصل ہیں یا فیک ہیں . شازمہ نے کہا کہ جب میں ویڈیو کال پر آئیں تو ڈی ایس پی برہنہ حالت میں بیٹھے ہوئے تھے . انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈی ایس پی کے وائس مسیجز اور ویڈیو کالز کے اسکرین شارٹ پولیس حکام کو فراہم کیے . ان وائس مسیجز میں شازمہ کے مطابق پولیس افسر ان کو اصرار کرتا ہے کہ وہ ان کو اپنی تصویریں بھیجے اور وہ ان کی تصویروں کو بار بار دیکھنا چاہتا ہے . آزاد کشمیر پولیس کے آفیشیل پیج ’اے جے کے پولیس‘ پر 29 مارچ کو جو بیان جاری کیا گیا تھا اس میں بھی اس کا ذکر تھا . اس میں کہا گیا تھا کہ مسمات شازمہ نے چند روز بعد ایک اور درخواست دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اس نے مقدمہ کے اندراج کے سلسلہ میں ڈی ایس پی طارق سے رابطہ کیا تو ڈی ایس پی نے اس کے ساتھ اخلاق سے گری ہوئی باتیں کیں . 17 اپریل کو پولیس نے شازمہ کو گرفتار کرلیا شازمہ کی جانب سے ڈی ایس پی سدھنوتی طارق محمود کے خلاف دی گئی تحریری درخواست پر بھی انکوائری سید ریاض حیدر بخاری اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس کرائم برانچ کو تفویض کر دی گئی ہے . کہا گیا تھا کہ شازمہ کو انکوائری آفیسر کے پاس پیش ہو کر ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور انکوائری تکمیل ہونے پر قصورواری کے مطابق ڈی ایس پی سدھنوتی کے خلاف بھی کارروائی ضابطہ عمل میں لائی جائے گی . اسی دوران 17 اپریل کو تھانہ پلندری کے پولیس نے شازمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 13 اپریل کو پولیس اسٹیشن میں فون کرکے گالم گلوچ کی اور دھمکیاں دیں . یوں17 اپریل کو ہی پولیس نے شازمہ کو گرفتار کرلیا . پولیس حراست میں اہلکار ٹارچر اور ہراساں کرتے رہے شازمہ نے کہا کہ ڈی ایس اور محرر کے خلاف ثبوتوں کو مٹانے کے لیے اور ان کو بچانے کے لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی . شازمہ 7 دن پولیس کی حراست میں رہیں . انہوں نے کہا کہ حراست کے دوران 4 پولیس اہلکار اے ایس آئی لیاقت، الیاس، نزاکت اور محمد نصیب کو ٹارچر کرتے رہے . اس دوران وہاں لیڈی پولیس موجود نہیں تھی . پولیس اہلکار برہنہ حالت میں سامنے گھومتے تھے شازمہ نے بتایا کہ یہ پولیس اہلکار برہنہ حالت میں میرے سامنے گھومتے تھے اور ڈی ایس پی طارق پولیس اہلکار نزاکت کے ساتھ موبائل فون پر رابطہ کرتا اور وہ مجھے کہتے ہیں کہ وڈیو کال پر مجھے اس لڑکی کو دکھاؤ اور یہ کہتے کہ میں نے تو تمہیں ویڈیو کال پر جسم دکھانے کی آفر کی تھی . اب تم حقیقت میں دکھاؤ گی . اب دیکھتے ہیں تم کیا کرسکتی ہو، اب تم ہماری حراست میں ہو . جس فون میں ثبوت تھے وہ حراست کے دوران پولیس نے لے لیا شازمہ نے کہا کہ ڈی ایس پی اور ایس پی کال پر موجود تھے اور مجھے کہہ رہے تھے کہ اب تک تمہیں پتا چل گیا ہوگا تمہارے ساتھ کیا ہوا . انہوں نے کہا کہ 7 دن بعد ان کو رات کی تاریکی میں کوٹلی جیل میں منتقل کردیا گیا . کوٹلی جیل میں ان کے ساتھ کسی نے بھی برا سلوک نہیں کیا . ان کا کہنا ہے جس فون پر یہ تمام ثبوت موجود تھے وہ فون حراست کے دوران پولیس نے لے لیا تھا . شازمہ نے کہا کہ حراست کے دوران پولیس نے ان سے آئی ڈی کارڈ، برقعہ، 6 ہزار روپے، جیولری اور چابیاں لیں جو واپس نہیں کی گئیں . جب پولیس نے ان کو گرفتار کیا تو وہ ان کو کسی سے بھی ملنے نہیں دے رہے تھے . گاؤں سے بہت سے لوگ ان سے ملنے آئے لیکن پولیس نے ان کو ملنے نہیں دیا . جنسی ہراسگی پر ڈی ایس پی طارق محمود کے خلاف انکوائری کی جائے انہوں نے کہا کہ راولپنڈی سے سماجی کارکن شاہین کنول ان کی ضمانت کروانےآئیں . لیکن ابتدا میں پولیس ان کو نہیں بتا رہی تھی کہ وہ کہاں ہیں . ان کا کہنا ہے کہ جب انہیں کوٹلی جیل منتقل کیا گیا تب ان کو معلوم ہوا کہ وہ کہاں ہیں اور پھر انہوں نے ان کی ضمانت کروائی . شازمہ کی طرف سے چیف سیکریٹری کو دی جانے والی درخواست کے بعد محمکہ داخلہ نے 28 مارچ کو انسپکٹر جنرل پولیس کو ایک مکتوب لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ شازمہ کے درخواست کی روشنی میں چھان بین کرکے رپورٹ محکمہ داخلہ کو بھیجی جائے . اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ معاملہ اشد ضروری تصور ہو . اس سے پہلے شازمہ نے اسی دن چیف سیکریٹری کو یہ درخواست دی تھی کہ ان کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے پر ڈی ایس پی طارق محمود کے خلاف انکوائری کی جائے . . .

متعلقہ خبریں