دنیا سے قرض لیکر ریاست چلانے والوں کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر ہیں، این ڈی پی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا تیرواں سینٹرل آرگنائزنگ باڈی اجلاس۔ ثنا بلوچ، معراج شاد اور علی جان مقصود اکثریت رائے سے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی ممبر منتخب ہوگئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا تیرہواں سینٹرل آرگنائزنگ باڈی اجلاس زیر صدار ت مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈووکیٹ منعقد ہوا۔ اجلاس کی کارروائی ڈپٹی آرگنائز ر سلمان بلوچ نے چلائی، اجلاس میں سیکرٹری رپورٹ سمیت رپورٹ برائے متفرق کمیٹیاں، تنقیدی نشست، عالمی، علاقائی سیاسی صورت حال، تنظیمی امور، آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ اجلاس کا آغاز شہدا بلوچستان کی یاد میں دو منٹ خاموشی سے کیا گیا جس کے بعد سیکرٹری رپورٹ سمیٹ مختلف کمیٹیوں نے اپنی رپورٹ پیش کیں جبکہ تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے میں سابقہ کارکردگی سمیت مختلف صورتحال پر تعمیری تنقید کی گئی۔ عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر کمیٹی ممبران نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالمی سیاسی صورتحال انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ دنیا جہاں جس طرح گلوبل وارمنگ سے درپیش چیلنجز کا سامنا کررہی ہے، جہاں پر سرمایہ دار ریاستوں سے بننے والی اور انہی کی پشت پناہی میں چلنے والی کمپنیوں سے نکلنے والے ایندھن سے دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہے اور جہاں پر ضرورت اس امر کی تھی کہ اس خطرناک ایندھن کو پھیلنے کے حوالے سے کوئی اقدام اٹھایا جاتا جس کے نتائج سے دنیا تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے اور دن بدن گرمی بڑھتی جارہی ہے، بجائے اس کے کہ عالمی برادری اس تباہی کو روکنے کے لیے کسی فنڈز کا اجرا کرتی مگر اس کے بجائے جنگی ساز و سامان فروخت کرنے کے لئے عالمی سامراجی ریاستیں جنگوں کو فروغ دے رہی ہیں جس طرح امریکا نے تائیوان، اسرائیل اور یوکرین جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ، حماس اور اسرائیل جنگ اور اس کے اثرات سے متاثر ہو کر ایران اور اسرائیل کا ایک دوسرے پر حملہ، ایرانی صدر کی بظاہر حادثاتی موت جس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف عالمی معیشت میں امریکہ اور چائنا کا اثر و رسوخ بڑھنے کی وجہ سے عالمی معیشت بائی پولر کی طرف گامزن ہے جبکہ انہی سامراجوں کے درمیان عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کی جنگ بھی جاری ہے، جیسا کہ جزیرہ تائیوان کے حوالے سے امریکی غیر واضح موقف کشیدگی کا سبب بن رہا ہے، حال ہی میں امریکہ کی تائیوان کو جنگی سازوسامان اور دفاع کے لئے دی گئی امداد، بین الاقوامی میڈیا میں بار بار تائیوان کا دفاع کے لئے کھڑے ہونے جیسے بیانات اس کشیدگی کو مزیدہوا دے رہے ہیں، جبکہ حال ہی میں چائنا کی جانب سے امریکی کانگریس کے اراکین کو بھی تائیوان دورے کے حوالے پرسختی سے منع کیا گیا اور ایسے کسی عمل کو چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔ اس کے علاوہ اسی بلاک کے اتحادی روس سے مقابلے کرنے کے لئے امریکہ کا یوکرین کو 61 ارب ڈالر امداد جبکہ اسرائیل کو 26 ارب ڈالر کا امداد بھی عالمی سیاست میں حریفوں کے مقابلے میں اپنا مقام مضبوط کرنا ہے۔ حماس و اسرائیل تنازعہ بھی غزہ کی پٹی سے نکل کر رفح تک پہنچ چکا ہے، جس کے اثرات امریکہ جیسے عالمی طاقت پر پڑرہے ہیں اور اب امریکہ بھی اسرائیل کی اس شدت سے گھبرا کر روکنے کا مشورہ دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ، ایران کا جوابی حملہ اور ایرانی صدر کی حادثاتی موت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دنیا کی معیشت اس وقت بائی پولر بن چکی ہے، آئی ایم ایف امریکہ بلاک اور ان تمام تر صورتحال کو ایک عام بلوچ بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ عالمی سامراجوں کی کشمکش کے اثرات دنیا بھر کی طرح بلوچستان پر بھی پڑ رہے ہیں ایک طرف سی پیک کی وجہ سے چائنا بلوچ سر زمین بالخصوص گوادر میں اپنے پنجے مضبوط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں چائنا اور بیرک گولڈ کمپنی کے بعد سعودی عرب کا براہ راست بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنا جبکہ ریکوڈک جیسے پراجیکٹ میں امریکی اتحادی سعودی کی شراکت واضح کرتی ہے کہ دونوں بلاکوں کے سامراج بلوچستان میں اپنے مفادات کو دیکھ کر یہاں پنجے گاڑھ رہے ہیں جبکہ اس معاہدے کا ایک مقصد سعودی معیشت میں پیٹرول کے متبادل آمدن کی تلاش جبکہ زمینی لحاظ سے ایران کے گرد بھی اپنے شکنجے مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان کے اندرونی حالات، سیاسی انتشار، عدلیہ، پارلیمنٹ سمیت اہم محکموں میں عسکری اداروں کی مداخلت جہاں ریاست پاکستان میں ہلچل پیدا کررہی ہے وہیں کمزور معیشت کی وجہ سے حکمران اس وقت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرضہ لے کر ریاست کو چلا رہے ہیں، اسی وجہ سے ریاست کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر مرکوز ہیں، اسی لیے بلوچ قوم کے مرضی اور منشا کے بغیر ریاست پاکستان پہلے چائنا، ایران اور اب سعودی عرب سے معائدہ کیے ہیں جو نوآبادیاتی پالیسیوں کو دوام بخش کر بلوچوں کو ماتحت رکھنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان میں حالیہ بارشوں نے ایک دفعہ پھر جہاں انفرا اسٹرکچر کو مزید تباہ کردیا ہے، گوادر سمیت قریبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہوچکا تھا، دیہات کے زمینی رابطے منطقع ہوگئے تھے، ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے سڑکیں بہہ گئی تھیں، گلی محلے تالاب کا منظر پیش کررہے تھے، بجلی کی سپلائی معطل ہوچکی تھی، بند ٹوٹ چکے تھے، فصلیں تباہ ہوگئی تھیں، جیونی، آواران، چاغی، خاران، اورماڑہ، لسبیلہ، حب، خضدار، قلات، نوشکی، جھل مگسی، نصیر آباد، سبی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی وغیرہ میں بھی بارشوں کے باعث تباہی ہوچکی تھی مگر ریاست اس تمام مرحلے میں عوام کو ریلیف دینے میں مکمل ناکام دکھائی دے رہا تھا تو عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اس آفت سے نکلنے کے لئے امدادی سرگرمیوں کا افتتاح کیا مگر ان امدادی سرگرمیوں میں معاونت کے بجائے ریاستی اداروں نے رکاوٹوں ڈالنے شروع کردیے، مختلف علاقوں میں امدادی کیمپوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ تنظیمی امور پر بحث کرتے ہوئے آرگنائزنگ کمیٹی ممبران نے کہا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی کامیابی پارٹی کی مضبوط اور واضح موقف کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر آئین و منشور کے مطابق پارٹی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔ نظریاتی ہتھیار سے لیس، ایک مضبوط پارٹی ڈھانچہ، اصولوں پر کاربند، انفرادیت سے آزاد پارٹی ہی دیر پا نتائج دے سکتی ہے اور انہی اصولوں کو بنیاد بنا کر نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے ذمہ داراں سمیت ممبران بلوچ قومی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ پارٹی کے اندر وہی لوگ ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات سے بالاتر ہوکر پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، ہر وہ شخص پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہونگے جو ذاتی خواہشات اور آزاد خیالی کا شکار ہیں۔ آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں ممبران نے فیصلہ لیا کہ بلوچ قومی رہبر نواب خیر بخش مری کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دسویں برسی کراچی میں منائی جائے گی۔ اس کے علاوہ پارٹی ڈھانچے کی مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوئے آرگنائزنگ باڈی کی خالی نشستوں پر معراج شاد، ثنا بلوچ اور علی جان مقصود کو اکثریتی رائے سے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر منتخب کیے گئے۔ اس کے علاوہ عالمی، علاقائی سیاسی صورتحال اور تنظیمی امور کو مدنظر رکھتے ہیں مختلف اہم فیصلے لیے گئے۔