اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کی خلائی ایجنسی سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) چاند پر سیٹلائٹ بھیجنے کے بعد اب خلا میں اپنا مواصلاتی سیٹلائٹ بھیجنے کے لیے تیار ہے جسے ملک کے مواصلاتی نظام میں اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے .
سپارکو کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کا جدید کمیونیکیشن سیٹلائٹ ایم ایم ون جمعرات کو چین کے شیچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں بھیجا جائے گا .
‘’پاک سیٹ ایم ایم ون پاکستان بھر میں ٹی وی نشریات، سیلولر فون سروس اور براڈ بینڈ سروسز بہتر بنانے میں مدد دے گا جو رواں برس اگست میں اپنی سروس فراہم کرنا شروع کر دے گا .
اس بارے میں سپارکو کے ساتھ کام کرنے والے ادارے سیٹلائٹ کنٹرول فیسیلٹی کراچی کے ڈائریکٹر عتیق الرحمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان چین کے تعاون سے اپنا دوسرا مواصلاتی سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے جس کی تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں .
سیٹلائٹ پر 8 سال پہلے کام کا آغاز ہوا: سپارکو
ملک کے مواصلاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ’پاک سیٹ ایم ایم ون‘ کو بنانے میں لمبا عرصہ لگا ہے .
سیٹلائٹ کنٹرول فیسیٹیلی کراچی کے ڈائریکٹر عتیق الرحمان نے بتایا کہ ایسے سیٹلائٹ کو بنانے میں تین سے چار سال کا وقت چاہیے ہوتا ہے تاہم ہمارے سیٹلائٹ پر کم و بیش آٹھ سال قبل کام شروع کیا گیا تھا، اُس وقت سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تھی .
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل متعلقہ عالمی اداروں سے اجازت لینا، پڑوسی ممالک کو اپنے سیٹلائٹ کی لوکیشن وغیرہ پر بھی اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی دوسرے ملک کا مواصلاتی نظام متاثر نہ ہو . ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک سیٹ ایم ایم ون ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کر دے گا کیونکہ کئی ترقی یافتہ ممالک نے اپنے مواصلاتی سیٹلائٹس کی بدولت ترقی حاصل کی ہے .
’پاکستانی سائنسدانوں اور انجینیئرز کا سیٹلائٹ بنانے میں اہم کردار‘
عتیق الرحمان کے مطابق پاکستان نے اپنا دوسرا مواصلاتی سیٹلائٹ چین کے اشتراک سے بنایا ہے تاہم سیٹلائٹ کے بنانے میں پاکستان کے سائنسدانوں اور انجینیئرز کا بھی اہم کردار ہے .
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ پاکستان خود سیٹلائٹ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے پاک سیٹ ایم ایم ون کے کچھ ماڈیولز بھی ہمارے سائنسدانوں اور انجینیئرز نے خود تیار کیے ہیں . ‘
ڈائریکٹر سیٹلائٹ کنٹرول اتھارٹی عتیق الرحمان نے بتایا کہ مواصلاتی سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان میں موجود سیٹلائٹ لانچ کنٹرول سینٹرز سے پاکستانی سائنسدان اور انجینیئرز ہی اپنے سیٹلائٹ کو آپریٹ اور کنٹرول کریں گے .
’کروڑوں کے اخراجات ریکور ہو سکیں گے‘
انہوں نے ’پاک سیٹ ایم ایم ون‘ پر اٹھے والے اخراجات کے حوالے سے بتایا کہ 8 سال کے عرصے میں اس سیٹیلائٹ کی تیاری پر کروڑوں کے اخراجات آئے، تاہم جب سیٹلائٹ خلا میں پہنچ کر باقاعدہ کام کرنا شروع کرے گا تو اس سے پاکستان کو اربوں روپے کا بزنس ملے گا .
پاکستان کا دوسرا مواصلاتی سیٹلائٹ ’پاک سیٹ ایم ایم ون‘ تقریباً 15 سال تک کے لیے خلا میں اپنی مقرر کردہ جگہ پر کام کرے گا . سپارکو کا کہنا ہے کہ اس سارے عرصے کے دوران میں سیٹلائٹ اپنے تمام فیچرز کے ساتھ کام کرتا رہے گا .
’ملک کے ہر کونے میں معیاری انٹرنیٹ سروسز‘
پاکستان کے بڑے شہروں کے علاہ دور دراز علاقوں میں اکثر انٹرنیٹ سروسز سست روی کا شکار رہتی ہیں تاہم پاکستان کے دوسرے مواصلاتی سیٹلائٹ کے خلا میں پہنچنے کے بعد پاکستان کے کسی کونے میں بیٹھ کر معیاری انٹرنیٹ حاصل کیا جا سکے گا .
ایچ ڈی ٹی وی چینلز کے لیے مواقع
میڈیا انڈسٹری پر ’پاک سیٹ ایم ایم ون‘ کے فوائد پر بات کرتے ہوئے عتیق الرحمان نے بتایا کہ پاکستان میں ہائی ریزولوشن ڈسپلے پر ٹی وی چینلز دیکھنے کے لیے راہ ہموار ہو گی . براڈ کاسٹرز کے لیے بھی ایچ ڈی کوالٹی میں کسی بھی ایونٹ کی کوریج ممکن ہو سکے گی .
سیٹلائٹ کو خلا میں پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟
عتیق الرحمن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سیٹلائٹ لانچنگ کے بعد مخلتف مراحل طے کرتے اپنے ہدف تک پہنچتا ہے چونکہ پاک سیٹ ایم ایم ون 36 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر بھیجا جا رہا ہے اس لیے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے چار سے پانچ روز کے اندر اپنے مقررہ مقام تک پہنچ جائے گا .
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پہلے دو سے تین ماہ کے اندر سیٹلائٹ کے بنیادی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس کی حالت کیا ہے . تین ماہ کے بعد وہ پوری طرح کام کرنا شروع کر دے گا .
ایرو سپیس انجینیئر اور خلائی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر قمر الحسن سمجھتے ہیں کہ ایک جدید مواصلاتی سیٹلائٹ پاکستان کے مواصلاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے نہایت ضروری تھا .
انہوں نے اُردو نیوز بتایا کہ ’یہ سیٹلائٹ ملک میں انٹرنیٹ سروسز کو جدید بنانے میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاک سیٹ ایم ایم ون جدید آلات سے لیس ہے . اس لیے ملٹی میڈیا چینلز اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے فروغ میں مدد ملے گی . ‘
ان کے مطابق ’فائبر آپٹکس کے ذریعے انٹرنیٹ کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اُس کے لیے کسی خاص علاقے میں کیبلز کا جال بچھانا پڑتا ہے تاہم کامیاب لانچنگ کے بعد ملک کے مخلتف حصوں میں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ کی رسائی ممکن ہو گی .