’وہ پری کہاں سے لاؤں‘، مصنوعی ذہانت سنیاسی پودے کی فیمیل پارٹنر کی تلاش میں سرگرداں


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دنیا میں ایک ایسا پودا بھی ہے جس کی کوئی فیمیل پارٹنر نہیں ہے اور اس وجہ سے اب اس کی نسل آگے نہ بڑھنے کے سبب وہ جلد یا بدیر ناپید ہوجانے کے شدید خطرے سے دوچار ہے۔
تاہم مصنوعی ذہانت نے اب اس بات کا بیڑا اٹھا لیا ہے کہ دنیا کے اس تہنا ترین پودے کے لیے کوئی مادہ ساتھی تلاش کی جائے تاکہ ان کا اس زمین پر کوئی نام لیوا و وارث سلامت رہے۔
ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی کی قیادت میں ایک تحقیقی منصوبہ جنوبی افریقہ میں ہزاروں ایکڑ جنگلات کی چھان بین کر رہا ہے جہاں یہ گبرو جوان پایا جاتا ہے جسے ای ووڈی کہتے ہیں۔ پام درخت کی طرح کا یہ پودا نر ہے اور قدرتی طور پر اس کی افزائش نہیں ہو سکتا۔
یہ قدیم نسل ڈائنوسار سے پہلے کی ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیارے پر سب سے زیادہ خطرے سے دوچار جانداروں میں سے ایک ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن ​​کی ریسرچ فیلو ڈاکٹر لارا سنٹی ای ووڈی کی ’دلہن‘ کی تلاش کے لیے ڈرون اور مصنوعی ذہانت استعمال کرنے کے پہلے پروجیکٹ کی سربراہی کر رہی ہیں۔
عاشق نامراد درخت

ڈاکٹر لارا کا کہنا ہے کہ ای ووڈی کی کہانی سے بہت متاثر ہوئی ہیں اور وہ انہیں ایک ناکام عشق کی داستان جیسی لگتی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ کہیں کوئی مادہ ضرور موجود ہو گی کیوں کہ وہ کبھی نہ کبھی تو رہی ہی ہوگی (تب ہی تو قدرتی طور پر یہ پودے مزید پیدا ہوئے) ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ مادہ مل جائے اور اس نر پودے سے اس کا ملاپ ہوجائے تو یہ بہت ہی زبردست بات ہوگی کیوں کہ ای ووڈی اب معدومیت کے دہانے پر موجود ہے۔

واحد معروف مجرد پودا ای ووڈی سنہ 1895 میں جنوبی افریقا کے این گوائے جنگل میں دریافت ہوا تھا۔ یہ اب تک صرف ایک نر پایا گیا ہے اور تمام بعد میں پھیلائے گئے اس کے نمونے نر کلون ہیں یعنی پودا قدرتی طور پر دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
جنگل کی ڈرون امیجنگ کا تجزیہ اے آئی کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ جس میں اب تک 10,000 ایکڑ رقبے میں سے 2 فیصد سے بھی کم رقبہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر لارا ساتھ کا کہنا ہے کہ ہم شکل کے لحاظ سے پودوں کو پہچاننے کے لیے تصویر کی شناخت کا الگورتھم استعمال کر رہے ہیں۔
دنیا کا تنہا ترین پودا
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پودوں کی تصاویر تیار کیں اور انہیں مختلف ماحولیاتی ترتیبات میں رکھا، تاکہ ماڈل کو ان کو پہچاننے کی تربیت دی جا سکے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ جنگل میں اس سے پہلے کبھی مکمل طور پر اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ آیا کوئی مادہ موجود ہے یا نہیں۔
اس پودے کو لندن کے کیو کے رائل بوٹینیکل گارڈنز میں کلوننگ کے ذریعے اگایا اور پھیلایا جاتا ہے جہاں اسے ’دنیا کا تنہا ترین پودا‘ کا نام دیا گیا ہے۔