سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’ہش منی‘ مقدمے میں کہاں کھڑے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف ’ہش منی‘ مقدمے کا فیصلہ کرنے والی نیویارک کی ایک جیوری کو اب آپس میں بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مجرم ہیں یا بے گناہ، تاہم پہلے روز اپنے اجلاس کے اختتام پر جیوری کے ارکان ابھی اس انتخاب سے دور نظر آئے۔
7 مردوں اور 5 خواتین پر مشتمل جیوری کو بدھ کو نیویارک کے وقت کے مطابق ساڑھے 11 بجے فیصلے پر بحث کرنے کی خاطر ایک علیحدہ کمرے میں چلے گئے، تاہم 12 رکنی جیوری لگ بھگ ساڑھے 4 گھنٹے تک گفتگو کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اپنا اجلاس برخاست کرگئی۔
’ہش منی‘ مقدمے کی اس جیوری نے ممکنہ طور پر ایک اہم شہادت کی دوبارہ سماعت سمیت جج کی جانب سے دی گئی قانونی ہدایات کے آخری حصے کو بھی دوبارہ پڑھنے کا کہا ہے، جیوری اپنی بحث جمعرات کو بھی جاری رکھے گی۔
امریکی قوانین کے تحت یہ اتنا آسان نہیں کوئی جیوری کسی ملزم کو مجرم یا بے گناہ قرار دے سکے، ملزم کو صرف اس صورت میں مجرم قرار دیا جا سکتا ہے جب کوئی جیوری متفقہ طور پر استغاثہ کی جانب سے کمرہ عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کو کسی معقول شک و شبہ سے بالاتر قرار دے۔
لیکن اگر جیوری متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ملزم پر عائد جرم کے ارتکاب کے الزام پر شک کی معقول وجہ بیان کرتے ہوئے فیصلہ دیتی ہے تو ملزم کو بری کیے کوئی چارہ نہیں رہتاہے۔
’ہش منی‘ مقدمہ میں ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے سابق سیاسی مشیر مائیکل کوہن کو 2016 کے انتخابات سے قبل پورن فلموں کی اداکارہ اسٹورمی ڈینیئلز کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کرنے کے لیے کہا تھا، تاکہ انہیں مبینہ طور پر اس دعویٰ پر خاموش کیا جاسکے کہ ان کا ٹرمپ کے ساتھ ایک رات کا جنسی تعلق قائم ہوا تھا۔
ویسے تو ڈونلڈ ٹرمپ اس الزام کی یکس تردید کرتے ہیں، اور دیکھا جائے تو ہش منی ڈیل غیر قانونی نہیں ہے، لیکن ٹرمپ پر 34 الزامات پر مبنی فرد جرم میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ کوہن کو 2017 کی ’ہش منی‘ کی ادائیگی پر پردہ ڈالنے کے لیے کمپنی کے کاروباری ریکارڈ میں ردوبدل کیا گیا تھا۔
اس ادائیگی کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف تھا کہ مذکورہ رقم مائیکل کوہن کو ان کے قانونی کام کے ضمن میں واجب الادا رقم تھی، ٹرمپ کے دفاعی وکیل نے دعویٰ کیا کہ مائیکل کوہن نے اپنی مرضی سے اور ٹرمپ کے علم میں لائے بغیر ڈینیئلز کے وکیل کو یہ رقم دی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خلاف کرمنل نوعیت کے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں، تمام فوجداری مقدمات کی طرح، نیویارک کی جیوری سابق امریکی صدر کو کچھ، تمام یا کسی بھی الزام میں قصوروار قرار دے سکتی ہے۔
کسی کو مجرم ثابت کرنے کا سارا بوجھ صرف استغاثہ پر ہے، دفاعی وکلا کو ملزم کو بے گناہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں اور مدعا علیہان کو اپنی طرف سے گواہی دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
امریکا میں جیوری بعض اوقات آپس میں اتفاق رائے نہیں پیدا کرپاتی کیونکہ جب وہ ملزم کیخلاف پیش کردہ شواہد پر غور کرتے ہیں تو کچھ ارکان ملزم کو مجرم قرار دینے کی حمایت جبکہ بعض دوسرے اراکین بریت کا تقاضا کرتے ہیں۔
بسا اوقت یوں بھی ہوتا ہے کہ جیوری سمجھتی ہے کہ وہ کچھ الزامات پر فیصلے پر پہنچی ہے لیکن دوسروں پر نہیں، ایسی صورت میں جیوری عام طور پر جج کو کچھ یا تمام الزامات پر اپنی بحث میں تعطل کے شکار ہونے کا بتاتی ہے۔
اس صورتحال میں جج ملزم کو درپیش غیر فیصلہ شدہ الزامات پر ’مس ٹرائل‘ کا اعلان یا جیوری سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کیس کے بارے میں مزید سوچ بچار کریں اور جیوری کے دوسرے اراکین کے دلائل اور رائے کی تحمل سے سماعت کریں۔
تمام تر کاوشوں کے باوجود اگر جیوری یہ کہے کہ وہ بدستور تعطل سے دوچار اور متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے کسی بھی امکان کے بارے میں نا امید ہیں تو جج ممکنہ طور پر ’مس ٹرائل‘ کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ استغاثے کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کے حق میں ہیں کہ نہیں۔