نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کے دوران ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں قید تنہائی میں رہ رہا ہوں، قانونی ٹیم سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی، ایک کرنل صاحب ہیں جو جیل میں ون ونڈو آپریشن چلارہے ہیں۔ میں آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تمام چیزیں مہیا کردی جائیں گی اور قانونی ٹیم سے ملاقات کا بھی آرڈر کردیتے ہیں، جس کے بعد عدالت نے سماعت جون تک ملتوی کردی۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے استدعا کی گئی کہ کیس کو لائیو دکھایا جائے، جس پر عدالت نے مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ سماعت لائیو نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی درخواست کو 4، ایک کے فیصلے سے مسترد کیا گیا ہے، کیونکہ معاملہ ٹیکنیکل ہے مداف عامہ کا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہیں، بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے بلیو کلر کی ڈریس شرٹ پہن رکھی ہے۔
مقدمہ لائیو دکھانے کی استدعا مسترد کردی گئی
سماعت کے آغاز میں ہی ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے استدعا کی کہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے لہذا اس کو لائیو دکھانا چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز بولے کہ عوامی مفاد کا نہیں بلکہ یہ ٹیکنیکل کیس ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ مقدمہ پہلے لائیو دیکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے، جس پر بینچ نے مشاورت کے لیے وقت مانگا اور اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لائیو اسٹریمنگ پر تھوڑی دیر تک بتاتے ہیں۔ جس پر سماعت میں وقفہ کیا گیا اور کچھ دیر بعد سماعت لائیو نہ دکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سماعت بہت بورنگ ہے لوگ عمران خان کو سننا چاہتے ہیں، فیصل جاوید
2گھنٹے سماعت کے دوران عمران خان کو ابھی تک بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا، عمران خان تسبیح پڑھتے رہے، سامنے رکھی فائلوں کو پڑھتے اور کچھ نوٹس لیتے رہے، سینٹر فیصل جاوید کمرہ عدالت سے اٹھ کے باہر آئے تو وی نیوز کے سوال پر جواب دیا کہ عدالتی کارروائی بہت بورنگ چل رہی ہے، لوگ بس خان صاحب کو سننا چاہتے ہیں۔
سماعت کا دوبارہ آغاز
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخت نہیں کرسکتی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں اپنی بات کرتا ہوں، میں سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں، وزیر اعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجودہ ججز کے لیے استعمال نہیں کیے گئے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
5،5 لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائیکورٹ میں چلتے رہے، جسٹس جمال خان مندوخیل
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائی گئیں، قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سے کم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا ذکر ہے، جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ 5،5 لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائیکورٹ میں چلتے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس کو نشانہ بنانا ہو، اس سے اثاثوں کی تفصیلات مانگ لو، جو دینا ممکن ہی نہیں۔
مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں عمران خان، فواد چوہدری سمیت کابینہ وزراء کہتے رہے کہ نیب قانون کے ہوتے ہوئے کاروبار کرنا مشکل ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اپنا احتساب ایکٹ بنایا تھا جسے مشکلات کی وجہ سے ختم کر دیا گیا۔
خیبرپختونخوا حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے، چیف جسٹس کا استفسار
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومت خیبرپختونخوا اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی۔ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ خیبرپختونخوا حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خیبرپختوںخوا میں احتساب ایکٹ اس لیے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہورہا تھا، وکیل مخدوم علی بولے کہ پی ٹی آئی کے وزرا پریس کانفرنسز کرکے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی تو آسان دلیل ہے کہ اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلہ کردیں، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے، پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔ اکثریتی فیصلے میں 100 ملین روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کا کہا گیا۔
عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، چیف جسٹس
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے، سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔
کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی استفسار کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں، کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کرکے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی، میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
وکیل مخدوم علی بولے کہ میری رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے دوبارہ پوچھا کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے، ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں، کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے، ججز آئینی عہدے ہیں۔
میں آدھا گھںٹہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، عمران خان
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ویڈیو لنک پیشی کے دوران عدالت کو بتایا کہ 8 فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا، جس پر چیف جسٹس بولے کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ہماری 2 درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہہیں وہ آپ کے پاس موجود ہیں۔
اس دوران چیف جسٹس اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کا مکالمہ ہوا، چیف جسٹس بولے کہ اس میں اپ کے وکیل کون ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان ایک سینیئر وکیل ہیں انہوں نے ملک سے باہر جانا تھا تو ان کو ان کی مرضی کی ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے۔
عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، آپ ان کو آرڈر کریں کہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں۔ وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے۔ مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔ میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں اور ہی لائبریری ہے۔
چیف جسٹس بولے کہ آپ کو ساری چیزیں مہیا کردی جائینگی، ہم آرڈر کردیتے ہیں آپ کے سامنے ہی۔ جس کے بعد عدالت نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ آپ اپنی ٹیم کے ساتھ ان سے جاکر مل لیں، لیکن پچاس لوگ نہ لے جائیے گا، 2 یا 3 لوگ کافی ہوتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں آدھا گھںٹہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، یہ نہایت اہم ملکی مفاد کا معاملہ ہے، ملک کے لیے زندگی موت کا سوال ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کریں گے۔ آج کی سماعت میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل کیے جبکہ خواجہ حارث نے دلائل کے لیے 3 گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔