پولیس اختیارات میں کمی پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ایک پیچ پر


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین پولیس کے اختیارات کم کرنے اور احتساب کو مؤثر بنانے کے لیے یک زبان ہو گئے، بجٹ اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی نے پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اختیارات پولیس چیف سے لے کر حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا۔
پولیس کے خلاف بحث کا آغاز کیسے ہوا؟
بجٹ اجلاس کے دوران پولیس کے خلاف کٹ موشن پر مسلم لیگ ن کی رکن ثوبیہ شاہد نے نکتہ اعتراض میں مؤقف اپنایا کہ 28 فروری کو حلف برداری اجلاس میں ایوان میں ان کے ساتھ جو ہوا سب نے دیکھا۔
’میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر میں نے گلہ کیا، کسی نے اس وقت میرا ساتھ نہیں دیا، اپوزیشن کے ارکان، نہ میرے پٹھان بھائیوں نے میرا ساتھ نہیں دیا، اس وقت اس ایوان میں کوئی ایسا مرد نہیں تھا جو اس کو روکتا۔‘
ثوبیہ شاہد نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی سے گلہ نہیں کیا، بلکہ قانونی کارروائی کے لیے تھانہ غربی میں درخواست دی، گالی دینے اور جوتا پھینکنے والوں کے خلاف زبردستی روزنامچہ درج کروایا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ایف آئی آر درج ہوئی، انہوں نے پولیس کی کارکردگی اور غیرجانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔
پولیس خود عدم تحفظ کا شکار ہے
اپوزیشن رکن ثوبیہ شاہد کو جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے معاون خصوصی ڈاکٹر امجد علی بھی پولیس پر برس پڑے، انہوں نے کہا کہ پولیس اپوزیشن رکن ثوبیہ شاہد سے معافی مانگے، اگر کسی نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔
امجد علی نے کہا کہ پچھلے 10 سال کا ریکارڈ منگوایا جائے کہ پولیس کو کتنے فنڈز ملے ہیں، 2017 میں پولیس ایکٹ کے تحت اختیارات پولیس کو دیے گئے ہیں، محکمہ پولیس کی کمزروی ہے کہ وہ ان اختیارات کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرآباد میں جو بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ ہوا اس کی ایف آئی آر بھی آج تک درج نہیں کی گئی، وہاں ن لیگ کی حکومت ہے جبکہ پولیس نے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی لیڈر شپ کے خلاف کارروائیوں میں چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔
امجد علی نے کہا کہ پولیس چیف کو تفویض کردہ اختیارات کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے، پولیس افسران خود عدم تحفظ کا شکار ہیں، 10 گاڑیاں اور درجنوں سیکیورٹی اہلکار لے کر پھرتے ہیں، وہ عوام کو کیا تحفظ دیں گے۔
پولیس افسران ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہیں
وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی نے کہا کہ پولیس کے افسران اپنے ہی لوئر رینک کے لوگوں کے دشمن ہیں، ڈی پی او کے پروٹوکول میں 10 گاڑیاں ہوتی ہیں، یہ عوام کے خادم ہیں یا پھر یہ خود عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس افسران ٹک ٹاک بنا کر اس کو شیئر کرتے ہیں، جس سے معاشرہ خراب ہوتا ہے، پولیس کے حالات بدتر ہیں، وہ خود عدم تحفظ کا شکار ہے۔
پولیس کے اختیارات کم کیے جائیں، اپوزیشن اراکین
خیبر پختونخوا اسمبلی میں بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمان نے مؤقف اپنایا کہ 2017 میں پولیس ایکٹ کے نفاذ کے موقع پر بھی انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے ذمہ دار وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ہیں، آئی جی پولیس اس کے ذمہ دار نہیں اور نہ ہی وہ اس ایوان کو جوابدہ ہیں۔’ہم آج بھی پولیس کے اختیارات پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
ٹک ٹاک پر پابندی
خیبرپختونخوااسمبلی میں پولیس افسران کی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر تنقید کے بعد ایس ایس پی آپریشنز پشاور کاشف ذوالفقار نے پشاور پولیس اہلکاروں اور افسران کے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر پابندی عائد کردی ہے، اس ضمن میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق کسی بھی پولیس اہلکار کی جانب سے ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کی جائیں گی اور پابندی کی خلاف ورزی کرنیوالے پولیس اہلکار کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
تمام غلطیوں کا ملبہ پولیس پر نہ ڈالیں
اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی سے اراکین نے جب رولنگ کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام نے اختیار اس ایوان کو دیا ہے، اس لیے ایوان کے ارکان تمام غلطیاں پولیس پر نہ ڈالیں۔
’محکمہ خزانہ بتائے کہ پولیس کے علاوہ باقی تمام سیکیورٹی اداروں کو کتنے پیسے دیے جا رہے ہیں، پولیس تو پھر بھی جوابدہ ہے کیا باقی ادارے بھی جوابدہ ہیں۔‘