مارگلہ کے جنگل میں شدید آگ قدرتی عمل یا انسانی شرارت؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر گرمی کی شدت بڑھنے کی وجہ سے ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی ہے جسے بجھانے کے لیے پاک بحریہ کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی مارگلہ کی پہاڑیوں پر 15 مقامات پر آگ لگی تھی جس پر بعد میں قابو پا لیا گیا تھا۔
ملک میں جنگلات میں سخت گرمی کے باعث آگ لگنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اگر جنگلات میں یونہی آگ لگتی رہی تو درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
گرمی کے باعث جنگلات میں آگ لگ جانا ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن قدرتی طور پر یونہی آگ لگتی رہی تو جنگلات کم ہوتے جائیں گے اور اس سے نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا بلکہ پورا ایکو سسٹم تباہ ہو جائے گا جبکہ پاکستان پہلے ہی موسمی تغیرات سے دوچار ہے۔

جنگلات کو گرمی کی شدت کے باعث آگ لگنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے اور اگر اسی طرح جنگل جلتے رہے تو پاکستان کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس حوالے سے وی نیوز نے ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
’جنگلات میں آگ قدرتی نہیں غفلت یا شرارت کے باعث لگتی ہے‘
سی ڈی اے کے ڈائریکٹر انوائرمنٹ عرفان نیازی نے وی نیوز کو بتایا کہ اپریل سے جولائی تک کے دورانیے کو فائر سیزن کہتے ہیں جس میں درجہ حرارت ویسے ہی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس دوران اگر کوئی شخص غلطی سے بھی کوئی سلگتی ہوئی سگریٹ یا شرارتاً کوئی بھی جلتی ہوئی چیز جنگل میں پھینک دے تو اس سے فوراً آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

عرفان نیازی نے کہا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کا جنگل ویسے بھی ایک گھنا جنگل ہے کیونکہ وہاں پر ایک درخت دوسرے سے بہت قریب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح اگر آگ ایک بار لگ جائے تو پھر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
’آگ کے پیچھے قدرتی عوامل بھی ہوسکتے ہیں‘
کلائمٹ ایکسپرٹ عثمان علی نے بتایا کہ جنگل کی آگ کی وجہ قدرتی عوامل بھی ہو سکتے ہیں جس کا انسانی سرگرمیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں اضافہ خشک سالی یا جنگل کے ماحول میں قدرتی آتش گیر مادوں کی موجودگی کے سبب ہوتا ہے اور گرمیوں میں پہلے ہی موسم اتنا گرم اور خشک ہو جاتا ہے کہ لکڑی اور پتے سب خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں جس کے باعث آگ لگنے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں اگر کوئی شخص چلتے پھرتے کوئی سگریٹ یا جلتی ہوئی دیا سلائی وہاں پھینک دے تو آگ لگ سکتی ہے۔

عثمان علی نے کہا کہ لکڑیاں اتنی خشک ہوتی ہیں کہ اگر آپس میں ٹکرائیں تو اس سے بھی چنگاریاں پیدا ہو سکتی ہیں اور آگ بھڑک سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ کچھ مخصوص پتھروں کے ٹکرانے سے بھی لگ سکتی ہے اور پھیل جاتی ہے اور یہ قدرتی محرکات جنگل کی آگ کا باعث بن سکتے ہیں جو ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات کے لیے اہم چیلنجز کا باعث بنتے ہیں۔
’مارگلہ پہاڑیوں پر رہنے والوں کی غفلت بھی آگ لگا سکتی ہے‘
تاہم عثمان علی کا کہنا تھا کہ مارگلہ کے جنگلات ایسے نہیں ہیں جہاں پر قدرتی طور پر آگ لگ جائے وہاں آگ لگنے کا باعث اس کے گر چھوٹے گاؤں ہیں جہاں کسی شخص کی غفلت سے اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔
’بلیک کاربن ہوا آلودہ کردیتا ہے جس سے سانس کی بیماریاں بڑھتی ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ جب جنگلات میں آگ لگتی ہے تو اس سے بلیک کاربن خارج ہوتا ہے اور جب وہ ہوا میں جاتا ہے تو آلودگی کا سبب بنتا ہے جس سے سانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

عثمان علی نے کہا کہ اس کے علاوہ آگ بجھ جانے کے بعد بچ جانے والی راکھ ہوا میں مکس ہوتی ہے تو اس سے دمہ، سانس کی الرجی اور دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
’آگ کی صورت میں جنگلی حیات سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے‘
وائلٖڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر انیس کا جنگلی جانوروں اور حیات کے حوالے سے کہنا تھا کہ جنگلات جلنے سے جنگلی حیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے اس سے چھوٹے جانور، پرندے اور ان کے انڈے جل جاتے ہیں کیونکہ جب آگ تیز ہوتی ہے انہیں بھاگنے کا موقع نہیں ملتا۔
ڈاکٹر انیس نے بتایا کہ جمعے کو جو آگ لگی ہے یہ تقریباً 40 فٹ تک جا رہی ہے اور اس کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ایسی آگ جنگلات میں عام طور پر کم ہی لگتی ہے۔
مارگلہ میں ایسی آگ کتنے برس بعد لگی ہے؟
انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے پہلے تقریباً 6 سال پہلے اتنی شدید آگ لگی تھی اور یہ وہ آگ ہے جسے روکا نہیں جا سکتا یہ خود ایک خاص جگہ پر پہنچتے پہنچتے کم ہوجاتی ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جب گھاس وغیرہ جل جاتی ہے اور مون سون میں بارشیں ہوتی ہیں تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تازہ گھاس اگتی ہے تاہم ایسی آگ کے نقصانات زیادہ ہیں کیوں کہ جنگلات کے جلنے سے وائلڈ لائدف کا پورا ماحول ڈسٹرب ہو جاتا ہے اور جانوروں اور پرندوں کا وہاں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔