مزہ سرکراسنگ اور ماشکیل زیرو پوائنٹ کو کاروبار کیلئے بحال کیا جائے، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)اراکین قومی و صوبائی اسمبلی انجینئر میر عثمان بادینی ، میر زابد علی ریکی اوربی این پی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں روزگارکاکوئی دوسراذریعہ نہیں، ماشکیل میں رہنے والے اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایران کے سرحدپرکاروبارکرتے ہیں، مقامی افرادکوذریعہ معاش کاموقع فراہم کرنے کیلئے مزہ سرکراسنگ پوائنٹ اور ماشکیل زیروپوائنٹ کوکاروبارکیلئے جلدازجلدبحال کیاجائے،جائے، ماشکیل تاکوئٹہ لانگ مارچ کے شرکاءکے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اورہرفورم پران کابھرپورساتھ دیں گے۔یہ بات انہوں نے ہفتہ کوجمعیت علماءاسلام کے ایم پی اے روی کمار،ایم پی اے ظفرآغا، ماشکیل لانگ مارچ کے رہنماءمیرجیندخان ریکی، میرکبیرریکی ودیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر جمعیت علماءاسلام کے رکن قومی اسمبلی حاجی عثمان بادینی نے کہا کہ ماشکیل سے کوئٹہ تک کاسفر700کلومیٹرطویل ہے، جبکہ نوکنڈی سے ماشکیل تک100کلومیٹرراستہ انتہائی دشوارگزارہے، بارشوں کے دوران یہاںسے سفرکرناممکن نہیں ، راستے بندہوجانے سے ماشکیل کازمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بیشتراضلاع کے لوگوں کاذریعہ معاش افغانستان اورایران کے سرحدوں کے سا تھ منسلک ہے، ماشکیل زیروپوائنٹ کی بندش کے مسئلے میں قومی اسمبلی فلورپرمتعددمرتبہ آوازاٹھائی مگرعملدرآمد نہیں ہوا۔مزہ سرکراسنگ پوائنٹ سے لوگ پیدل جبکہ زیروپوائنٹ سے کاروبارکرتے تھے مگرعرصہ درازسے ان پوائنٹس کو بندکردیاگیا ہے ، ایران ہماراہمسایہ ملک ہے اورہم کاروبارکرکے دونوں ممالک کیلئے اچھے مواقع فراہم کرسکتے ہیںحکومت بارڈرکی بندش کامسئلہ حل کرے۔اس موقع پررکن صوبائی اسمبلی میرزابدریکی نے کہا کہ برساتی پانی کی آمد کے دوران ماشکیل جزیرہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور ہامون ماشکیل کاراستہ مکمل طورپربلاک ہوجاتا ہے، اس ضمن میںاسمبلی فلورپرآوازاٹھائی مگرہماری بات کوئی نہیں سنتا، ایف بی آر والے اپنی مرضی سے جب جی چاہا بارڈر کھول دیتے اور جب جی چاہا بند کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”کاٹاگری “پوائنٹس سے روزانہ50کے لگ بھگ ٹرک پاکستان آتے تھے اوراس سے ٹیکس کی مد میں اچھی خاصی رقم ملتی تھی جس سے ملک کوفائدہ ہورہا تھامگرکوگزشتہ 15 سال سے اس کوبندکردیاگیاہے، تفتان، پنجگور، تربت اورگوادرسے راہداری نظام کے تحت سرحد کے قریبی آبادی کو15دن کیلئے آنے جانے کی اجازت دی جاتی ہے مگرہمارے یہاں اس کو بندکردیاگیا ہے ، جمعہ کوایران میں چھٹی ہوتی ہے ہمارے حکام نے یہاں اتوارکے روزبھی چھٹی کے نام کام بندکردیاہے، انہوں نے کہا کہ ماشکیل کی ایک لاکھ کے لگ بھگ آبادی کا دارو مدار مزہ سربارڈر سے منسلک ہے اوروہ یہاں سے اشیا خورونوش لاکر گزر بسر کرتے تھے مگراب یہ بندکردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ یہ ہمارآئینی حق ہے، ہمیں اپوزیشن سمجھ کرانتقامی کارروائیاں کررہے ہیں توکسی صورت برداشت نہیں کریںگے، انہوں نے کہا کہ ماشکیل کے نوجوانوں نے ایک ماہ تک وہاں احتجاج کیامگرکسی نے ان سے بات تک نہیں کی اوروہ کوئٹہ آگئے، یہاں پریس کلب کے سامنے انہیں24گھنٹے گزرگئے مگراب تک کسی حکومتی نمائندہ یاوزیران سے بات کرناتک گوارہ نہیں کیا، ڈپٹی کمشنررات ایک بجے آئے اوراپنی باتیں کرکے چلے گئے ، انہوں نے کہا کہ کسٹم کلکٹرکوپتہ نہیں ماشکیل کابارڈرکیوں بندہے ہمیں بندش کی وجہ بھی نہیں بتارہے ہیں۔