انٹارکٹیکا کا سونا اُگلتا آتش فشاں، حقیقت یا فسانہ؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جہاں دنیا میں لوگ سونے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، وہیں انٹارکٹیکا میں ایک مقام ایسا بھی جہاں موجود آتش فشاں روزانہ بڑی مقدار میں سونا اگلتا ہے۔
12 ہزار 4 سو 48 فٹ کی بلندی پر واقع ماؤنٹ اریبس انٹارکٹیکا کے 138 آتش فشاؤں میں شامل ہے، تاہم ان میں سے فقط 3 آتش فشاں ایسے جو اکثر لاوا خارج کرتے ہیں۔

امریکا میڈیا کے مطابق یونی ورسٹی آف کوپن ہیگن کی ایک ریسرچ کے مطابق زیادہ تر برف سے ڈھکے ہوئے برِاعظم انٹارکٹیکا پر ماضی میں بہت سے ایسے آتش فشاں موجود تھے جو آج زمین پر پائے جانے والے آتش فشاں پہاڑوں سے کئی گنا بڑے تھے۔
ماؤنٹ اریبس کی دریافت
ماؤنٹ اریبس اس وقت انٹارکٹیکا کا سب سے بڑا آتش فشاں ہے۔ اسے 1841 میں برطانوی تحقیق دان کیپٹن سر جیمز کلارک نے پہلی بار تب دریافت کیا تھا، جب اس میں سے لاوا اور گیس خارج ہو رہی تھی۔

سونے کے ذرات
سائنسی جریدے ’نیو سائنس‘ کی 1991 کی رپورٹ کے مطابق اس آتش فشاں پہاڑ سے خارج ہونے والی گیس میں 0.1 سے 20 مائیکرو میٹر حجم کے سونے کے ذرات ملے ہیں۔ جب کہ قریب ہی برف سے 60 مائیکرو میٹر کے حجم کے ذرات بھی دریافت ہوئے ہیں۔
سونے کی قیمت لاکھوں روپے کے برابر
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس پہاڑ سے روزانہ 80 گرام کے قریب سونا انتہائی گرم گیس کے دھوئیں سے مل کر خارج ہوتا ہے۔ اس سونے کی قیمت لاکھوں روپے کے برابر ہے۔

آتش فشاؤں میں سونا کیسے آتا ہے؟
سائنسی جریدے ’ایڈوانسنگ ارتھ اینڈ اسپیس سائنسز‘ میں 1991 میں ہی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سونے کے بہت سے ذخائر آتش فشاں سے نکلے پتھروں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ارضیات دان اس بات کا پتا لگا لیں کہ ان آتش فشاؤں میں سونا کیسے آتا ہے تو سونے کے ذخائر ڈھونڈنے میں آسانی ہو سکے گی۔

لکھ پتی بننا آسان نہیں؟
ہوا میں خارج ہوئے اس سونے سے کسی فرد کا یک دم لکھ پتی بننا بھی کچھ آسان نہیں ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سونے کے یہ باریک ذرات ہوا کے ذریعے دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور ایسے ذرات اس آتش فشاں سے ایک ہزار کلو میٹر دور بھی دریافت ہوئے ہیں۔