ماشکیل کے رہائشی پیدل لانگ مارچ کرتے کوئٹہ کیوں آئے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے اساتذہ گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں تو دوسری جانب پاک افغان سرحدی شہر چمن میں پاسپورٹ کی شرط کو ختم کرنے کے خلاف لغڑی اتحاد گزشتہ 8 ماہ سے ڈی سی آفس کے باہر دھرنا دیے بیٹھا ہے اور اب ماشکیل کے رہائشی بھی بنیادی سہولیات کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
ماشکیل سے نوکنڈی تک شاہراہ کی عدم تعمیر اور دیگر مطالبات کے حق میں ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقے واشک کی تحصیل ماشکیل کے رہائشی 600 کلومیٹر سے زیادہ سفر پیدل طے کرکے چاغی، نوشکی اور مستونگ سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچے، جہاں مظاہرین نے پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا دیا۔
اس دوران مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مقامی افراد اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔
ماشکیل سے 2 ہفتے قبل کوئٹہ کی جانب روانہ ہونے والے 15 افراد میں ایک معذور شخص بھی شامل ہے، جو شدید گرمی میں اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے پیدل ہی کوئٹہ کی جانب روانہ ہوا، راستے کی سختی اور چلچلاتی دھوپ سے مظاہرین کے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔
ایران کی سرحدی گزرگاہ کی بندش، علاقے میں اشیائے خورونوش کی قلت
مظاہرین کا مؤقف ہے کہ پاک ایران سرحد کی بندش کے باعث ماشکیل میں مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، جبکہ اس بڑھتی مہنگائی سے منافع خوروں کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے، ایسے میں یہ لوگ عوام کا گوشت نوچ رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
ان دونوں ماشکیل میں آٹے کے 40 کلو تھیلے کی قمیت 10 ہزار اور مرغی کی قیمت 1800 فی کلو روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ سبزیاں 500 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی ہیں ۔
مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رکھیں گے، مظاہرین
مظاہرین کا کہنا ہے کہ دور دراز ہونے کے باعث ماشکیل میں کوئٹہ، پنجاب اور کراچی سے آنے والی کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں ویسے ہی زیادہ تھیں، جس کی وجہ سے وہاں کی عوام ایرانی اشیا سے اپنی ضرورت کو پورا کرتے تھے، لیکن اب وہاں مہنگائی کا جن بوتل سے ایسا باہر آیا ہے کہ لگتا ہے عوام کو نگل کر ہی سکون لے گا۔
مہنگائی کے ستائے لانگ مارچ کے شرکا نے مطالبات کے تسلیم ہونے تک کوئٹہ پریس کلب کے باہر دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔